أَوَمَن يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ
اور کیا (اس نے اسے رحمان کی اولاد قرار دیا ہے) جس کی پرورش زیور میں کی جاتی ہے اور وہ جھگڑے میں بات واضح کرنے والی نہیں ؟
1۔ اَوَ مَنْ يُّنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ....: اس آیت میں دو وجہوں سے لڑکیوں کا لڑکوں سے کم تر ہونا بیان فرمایا ہے، ایک یہ کہ عورتوں کا حسن زیور وغیرہ کی زینت کا محتاج ہے، اس لیے بچپن ہی سے ان کی پرورش زیور میں کی جاتی ہے، جب کہ مرد کو اس کی ضرورت نہیں، اس کا حسن ویسے ہی کامل ہے۔ دوسری یہ کہ مرد مضبوط، دلیر اور شجاع ہوتا ہے جو خم ٹھونک کر دشمن کے مقابلے میں اترتا ہے، جب کہ عورت نرم و نازک اور کمزور ہوتی ہے جس کی بہادری یہ ہے کہ جب بس نہ چلے تو رو کر دکھا دے۔ فرمایا ایسی کمزور جنس کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دیتے ہو اور لڑکے جو مردِ میدان اور صاحبِ عزم و ہمت ہوتے ہیں اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ 2۔ اس آیت سے عورتوں کے لیے زیور کا جواز ثابت ہوتا ہے، اس لیے ان کے لیے سونا اور ریشم پہننا حلال کر دیا گیا جو مردوں کے لیے حرام ہے اور یہ بھی کہ مردوں کو نسوانی آرائش اختیار کرنے سے اجتناب لازم ہے۔ دونوں مسئلوں کی احادیث معروف ہیں۔