وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا ۚ إِنَّ الْإِنسَانَ لَكَفُورٌ مُّبِينٌ
اور انھوں نے اس کے لیے اس کے بعض بندوں کو جز بنا ڈالا، بے شک انسان یقیناً صریح ناشکرا ہے۔
1۔ وَ جَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا: اس آیت کا تعلق آیت (۹) : ﴿ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ﴾ کے ساتھ ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مشرکین کی جہالت پر تعجب دلاتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ دیکھو یہ لوگ مانتے ہیں کہ آسمان و زمین کا خالق اور ان کی ہر چیز کا مدبر اللہ تعالیٰ ہے، جو مخلوق سے جدا ہے اور کسی طرح محتاج نہیں، پھر اس کے لیے شریک اور اس کی اولاد بناتے ہیں۔ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ جو آسمان و زمین کو پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے وہ مدد کے لیے یا دل لگانے کے لیے کسی کا محتاج نہیں، کیونکہ یہ دونوں نقص کی علامتیں ہیں۔ پھر ظلم دیکھو کہ عباد ( غلاموں) کو اولاد قرار دے رہے ہیں، جب کہ اولاد غلام ہو ہی نہیں سکتی، کیونکہ وہ تو باپ کا جزو ہوتی ہے۔ جب کوئی اللہ کا جزو ثابت ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کا اس کا محتاج ہونا بھی ثابت ہو گیا۔ ’’ عِبَادِهٖ ‘‘ میں فرشتے، جن اور انسان سبھی داخل ہیں۔ یہود و نصاریٰ نے عزیر و مسیح کو ابن اللہ قرار دیا، تو کچھ نام نہاد مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے نور کا ٹکڑا قرار دیا اور بعض نے کہا کہ پنج تن اللہ کے نور سے پیدا ہوئے ہیں۔ دیکھیے سورۂ توبہ کی آیت (۳۰) کی تفسیر۔ مشرکین فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ انھوں نے ان کے بت عورتوں کی شکل میں بنا رکھے تھے۔ یہی دیویاں تھیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔ 2۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ: صریح نا شکرا اس لیے کہ جس پروردگار نے اسے پیدا کیا، زمین و آسمان اور کل کائنات پیدا فرمائی، اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کو ایک مان کر اس اکیلے کی بندگی کرنے کے بجائے اس نے اس کے بندوں کو اس کی اولاد قرار دے کر صفات ہی میں نہیں اس کی ذات میں بھی شریک ٹھہرا دیا۔