سورة الزخرف - آیت 13

لِتَسْتَوُوا عَلَىٰ ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر بیٹھو، پھر اپنے رب کی نعمت یاد کرو، جب ان پر جم کر بیٹھ جاؤ اور کہو پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لیے تابع کردیا، حالانکہ ہم اسے قابو میں لانے والے نہیں تھے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لِتَسْتَوٗا عَلٰى ظُهُوْرِهٖ....: انسان جب گھوڑوں، گدھوں، خچروں، اونٹوں یا کشتیوں پر سوار ہوتا ہے اور جم کر بیٹھ جاتا ہے تو عام عادت بن جانے کی وجہ سے اسے احساس ہی نہیں ہوتا کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سواریوں کو تابع کر دیے جانے کی کتنی بڑی نعمت عطا ہوئی ہے۔ ذرا کسی شیر یا چیتے یا کسی اور جنگلی جانور پر اس طرح جم کر بیٹھے، پھر اسے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر ہو گی۔ یہی حال سمندر میں پہاڑوں جیسی موجوں کے درمیان بحری جہازوں پر سکون و اطمینان کے ساتھ سواری کا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے کشتیوں اور چوپاؤں میں سے تمھارے لیے سواریاں بنائیں، تاکہ ان کی پشتوں پر جم کر بیٹھو، پھر جب ان پر جم کر بیٹھ جاؤ تو اپنے رب کی انھیں تمھارے لیے مسخر کرنے کی نعمت یاد کرو۔ وَ تَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا....: اور دل میں یاد کرنے کے ساتھ زبان سے بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح ان الفاظ میں بیان کرو، تاکہ تمھیں احساس رہے اور اقرار بھی ہوتا رہے کہ ان سواریوں کو قابو میں لانا کبھی ہمارے بس کی بات نہ تھی اور یہ بھی کہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ان سواریوں کی محتاجی ہم مجبور بندوں کی ضرورت ہے۔ ہمارا مالک ہر قسم کے احتیاج اور مجبوری سے پاک ہے۔اگر انسان سوچے تو سواریوں سے پہلے زمین کی پشت بھی چوپاؤں اور کشتیوں کی پشت کی طرح ہے، جس پر سوار وہ زمانے کے حوادث اور تھپیڑوں کے درمیان جم کر محوِ سفر ہے۔ سو ہماری ابتدا ہمارے رب کی طرف سے ہوئی، اس نے زندگی بسر کرنے کے لیے زمین کی پشت کو ہمارے لیے بچھونا بنا دیا، پھر اس نے چوپاؤں اور کشتیوں کی پشت کو ہمارے لیے جائے سکون بنا دیا، اب ساری عمر ہم ان پر سکون و اطمینان کے ساتھ سوار ہوتے رہتے ہیں۔ وَ اِنَّا اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ: اور یہ بات یقینی ہے کہ ہم دنیا کی زندگی کا سفر پورا کرنے کے بعد اپنے رب کی طرف واپس پلٹنے والے ہیں۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’اس میں دنیا کے سفر سے آخرت کے سفر کی طرف تنبیہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیوی زاد سے آخرت کے زاد کی طرف تنبیہ فرمائی، فرمایا : ﴿وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى﴾ [ البقرۃ : ۱۹۷ ] ’’اور زادِ راہ لے لو کہ بے شک زاد راہ کی سب سے بہتر خوبی(سوال سے) بچنا ہے۔‘‘ اور دنیوی لباس کے ساتھ آخرت کے لباس کی طرف تنبیہ فرمائی ہے، فرمایا : ﴿ وَ رِيْشًا وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى ذٰلِكَ خَيْرٌ ﴾ [ الأعراف : ۲۶ ] ’’اور زینت بھی اور تقویٰ کا لباس! وہ سب سے بہتر ہے۔‘‘ 4۔ ’’ عَلٰى ظُهُوْرِهٖ ‘‘ میں ’’هٖ ‘‘ ضمیر ’’ مَا تَرْكَبُوْنَ ‘‘ میں اسم موصول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اگرچہ اس کے معنی میں عموم ہے، مگر لفظ واحد ہونے کی وجہ سے ضمیر واحد لائی گئی ہے۔ 5۔ یہ دعا سواری پر سوار ہونے کے بعد کی ہے، سوار ہوتے وقت ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا چاہیے، جیسا کہ نوح علیہ السلام نے اپنے ساتھ کشتی میں سوار ہونے والوں کو فرمایا تھا : ﴿ وَ قَالَ ارْكَبُوْا فِيْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖىهَا وَ مُرْسٰىهَا اِنَّ رَبِّيْ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ﴾ [ھود : ۴۱ ] ’’اور اس نے کہا اس میں سوار ہو جاؤ، اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا اللہ ہی کے نام کے ساتھ ہے، بے شک میرا رب یقیناً بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ علی ازدی کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنھما نے انھیں سکھایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر کی طرف نکلتے ہوئے سواری پر جم کر بیٹھ جاتے تو تین دفعہ ’’اَللّٰهُ أَكْبَرُ‘‘ کہتے، پھر کہتے : (( سُبْحَانَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِيْنَ وَإِنَّا إِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ، اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِيْ سَفَرِنَا هٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی، اَللّٰهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هٰذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ، اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيْفَةُ فِي الْأَهْلِ، اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ وَسُوْءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَ الْأَهْلِ ((’’ پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لیے تابع کر دیا، حالانکہ ہم اسے قابو میں لانے والے نہ تھے اور بے شک ہم اپنے رب کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ ! ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کا سوال کرتے ہیں اور عمل میں سے ایسے عمل کا جسے تو پسند فرمائے۔ اے اللہ ! ہم پر ہمارا یہ سفر آسان کر دے اور اس کی دوری کو ہم سے لپیٹ دے۔ اے اللہ ! تو ہی سفر میں ساتھی اور گھر والوں میں جانشین ہے۔ اے اللہ ! میں سفر کی مشقت اور غم ناک منظر دیکھنے سے اور مال اور اہل میں ناکام لوٹنے کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو یہی الفاظ کہتے اور یہ الفاظ مزید کہتے: (( آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ )) [ مسلم، الحج، باب استحباب الذکر إذا رکب دابتہ....: ۱۳۴۲ ] ’’ہم واپس لوٹنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، اپنے رب ہی کی حمد کرنے والے ہیں۔‘‘ کتبِ احادیث میں سفر کی اور دعائیں بھی مذکور ہیں۔