وَالَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْكَبُونَ
اور وہ جس نے سب کے سب جوڑے پیدا کیے اور تمھارے لیے وہ کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔
1۔ وَ الَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا: تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ یس کی آیت (۳۶) کی تفسیر۔ 2۔ وَ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَ الْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ: اس سے پہلے زمین میں راستے بنانے کا ذکر فرمایا ہے جن کے ذریعے سے لوگ مختلف جگہوں کی طرف اپنی ضروریات کے لیے سفر کرتے ہیں، اب یہ نعمت یاد دلائی کہ شہروں، میدانوں، صحراؤں اور پہاڑوں میں سفر کے لیے اللہ تعالیٰ نے چوپائے پیدا فرمائے اور سمندروں میں قریب و دور سفروں کے لیے کشتیاں اور بڑے بڑے جہاز بنائے۔ بقاعی نے ’’ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا ‘‘ کے ساتھ چوپاؤں اور کشتیوں کے ذکر کی بھی ایک مناسبت ذکر فرمائی ہے کہ ’’ الْاَزْوَاجَ ‘‘ سے ذہن مختلف جوڑوں کی طرف منتقل ہوتا ہے، مثلاً نر اور مادہ، اس لیے یہ واضح کرنے کے لیے کہ ’’ الْاَزْوَاجَ ‘‘ سے مراد صرف جوڑے ہی نہیں بلکہ وہ تمام اصناف ہیں جن کی ایک دوسرے سے مناسبت یا موافقت یا مخالفت ہوتی ہے، جیسے زمین و آسمان، شب و روز، نیک و بد اور جنت و جہنم وغیرہ، اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں اور کشتیوں کا ذکر فرمایا کہ دونوں کی بناوٹ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے، مگر مقصود دونوں سے ایک ہے ’’ مَا تَرْكَبُوْنَ ‘‘ یعنی انسان کے لیے بحر و بر میں سواری مہیا کرنا۔