سورة الشورى - آیت 51

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعے، یا پردے کے پیچھے سے، یا یہ کہ وہ کوئی رسول بھیجے، پھر اپنے حکم کے ساتھ وحی کرے جو چاہے، بے شک وہ بے حد بلند، کمال حکمت والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ: کفار کا کہنا تھا : ﴿ لَوْ لَا يُكَلِّمُنَا اللّٰهُ ﴾ [ البقرۃ : ۱۱۸ ] ’’اللہ ہم سے (خود) کلام کیوں نہیں کرتا؟‘‘ بلکہ ان کی خواہش تھی کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کتاب عطا ہوئی ہم میں سے ہر ایک کو اسی طرح کتاب ملے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ بَلْ يُرِيْدُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ اَنْ يُّؤْتٰى صُحُفًا مُّنَشَّرَةً﴾ [ المدثر : ۵۲ ] ’’بلکہ ان میں سے ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ اسے کھلے ہوئے صحیفے دیے جائیں۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک سے کلام نہیں کرتا، بلکہ وہ اس کے لیے فرشتوں اور انسانوں میں سے انتخاب کرتا ہے، فرمایا : ﴿ اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ﴾ [ الحج : ۷۵ ] ’’اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے چنتا ہے اور لوگوں سے بھی۔‘‘ اس نعمت سے بھی وہ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے یہ نعمت کیوں نہیں ملی۔ اس آیت میں فرمایا کہ وہ اپنے ان چنے ہوئے بندوں کے ساتھ بھی آمنے سامنے کلام نہیں کرتا اور نہ ہی یہ بات دنیا میں کسی بشر کے لیے ممکن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( حِجَابُهُ النُّوْرُ وَ فِيْ رِوَايَةِ أَبِيْ بَكْرٍ النَّارُ، لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهٰي إِلَيْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ )) [ مسلم، الإیمان، باب في قولہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’إن اللّٰہ لا ینام‘‘....: ۱۷۹ ] ’’اللہ تعالیٰ کا حجاب ’’نور‘‘ ہے۔‘‘ ابوبکر کی روایت میں ہے کہ ’’نار‘‘ ہے ’’اگر وہ اسے ہٹا دے تو اس کے چہرے کی شعائیں جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے اس کی مخلوق کو جلا دیں۔‘‘ ہاں آخرت میں ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ قیامہ (۲۲، ۲۳)۔ اِلَّا وَحْيًا: فرمایا اللہ تعالیٰ انسانوں سے ان تین طریقوں کے علاوہ کلام نہیں کرتا، ایک وحی کے ذریعے سے، یعنی یہ کہ وہ اپنے بندے کے دل میں کسی واسطے کے بغیر کوئی بات ڈال دے جس سے اسے یقین ہو جائے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، خواہ بیداری کی حالت میں ہو یا نیند میں، کیونکہ انبیاء کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔ دیکھیے سورہ صافات ( ۱۰۲)۔ اَوْ مِنْ وَّرَآء حِجَابٍ: یا یہ کہ وہ پردے کے پیچھے سے کلام کرے، جیسے اس نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا، مگر جب انھوں نے دیکھنے کی درخواست کی تو وہ قبول نہیں ہوئی۔ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا: یا اللہ تعالیٰ کوئی فرشتہ بھیج کر جو بات پہنچانا چاہے پہنچا دے، جیسے جبریل علیہ السلام یا دوسرے فرشتوں کے ذریعے سے آپ کے پاس وحی آتی تھی۔ اِنَّهٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌ: یعنی وہ اس سے بہت بلند ہے کہ کسی بشر سے رُو در رُو کلام کرے، یا ہر ایک اس کے کلام کا شرف حاصل کر سکے اور وہ کمال حکمت والا ہے، جس کے تحت وہ ہر بشر سے کلام نہیں کرتا۔