اسْتَجِيبُوا لِرَبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ ۚ مَا لَكُم مِّن مَّلْجَإٍ يَوْمَئِذٍ وَمَا لَكُم مِّن نَّكِيرٍ
اپنے رب کی دعوت قبول کرو، اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس کے ٹلنے کی اللہ کی طرف سے کوئی صورت نہیں، اس دن نہ تمھارے لیے کوئی جائے پناہ ہوگی اور نہ تمھارے لیے انکار کی کوئی صورت ہوگی۔
1۔ اِسْتَجِيْبُوْا لِرَبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ....: ’’ مَرَدَّ ‘‘ ’’رَدَّ يَرُدُّ رَدًّا‘‘ (ن) سے مصدر میمی بھی ہو سکتا ہے، ظرف زمان بھی اور ظرف مکان بھی، ہٹانے یا ٹالنے کی کوئی صورت یا کوئی وقت یا کوئی جگہ۔ اس جملے میں اللہ تعالیٰ کی دعوت کو جلد از جلد قبول کرنے کی تاکید کئی طرح سے فرمائی ہے۔ سب سے پہلے ’’ أَجِيْبُوْا ‘‘ کے بجائے ’’ اِسْتَجِيْبُوْا ‘‘ کے لفظ کے ساتھ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے اسی سورت کی آیت (۳۸) کی تفسیر۔ پھر اپنی ربوبیت کے احسان کی یاد دہانی کے ساتھ اور آخر میں اس دن سے ڈرانے کے ساتھ جس کے آنے کے بعد نہ اس کے ٹالے جانے کی کوئی صورت ہے، نہ وہ کسی وقت ٹالا جا سکے گا اور نہ کسی مقام پر ٹلے گا۔ 2۔ لَا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ: اس کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ اس کے آنے کے بعد اللہ کی طرف سے اسے ہٹانے کی کوئی صورت نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ اسے کسی صورت نہیں ہٹائے گا۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے آنے کے بعد کوئی ایسی ہستی نہیں جو اسے ہٹا سکے۔ 3۔ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ نَّكِيْرٍ: ’’ نَكِيْرٍ ‘‘ مصدر ہو تو اس کا معنی انکار بھی ہے اور نکرہ (اجنبی اور بے پہچان) ہونا بھی اور اگر ’’فَعِيْلٌ‘‘ بمعنی اسم فاعل ہو یعنی ’’ مُنْكِرٌ‘‘ تو معنی ’’بدلنے والا‘‘ ہو گا۔ یعنی قیامت کے دن تم اپنے جرائم کا کسی طرح انکار نہیں کر سکو گے، بلکہ نامۂ اعمال اور فرشتوں کی شہادتوں حتیٰ کہ اپنے اعضا کی گواہی کی وجہ سے تمھارے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔ ’’ مَا لَكُمْ مِّنْ نَّكِيْرٍ ‘‘ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ تمھیں جو سزا دی جائے گی تم اس پر کوئی احتجاج نہیں کر سکو گے، نہ کوئی انکار کہ ہم یہ سزا قبول نہیں کرتے، نہ ہی تم یا کوئی اور اس حالت کو بدلنے والا ہو گا جس میں تم مبتلا ہو گے اور یہ بھی نہیں ہو گا کہ تمھاری پہچان نہ ہو سکے اور تم اجنبی اور غیر معروف بن کر چھوٹ جاؤ یا بھیس بدل کر چھپ جاؤ۔