وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ
اور جو بھی تمھیں کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ بہت سی چیزوں سے در گزر کرجاتا ہے۔
1۔ وَ مَا اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور نشانیوں کا تذکرہ ہو رہا ہے، اس سلسلے میں لوگوں کے بارش سے ناامید ہونے کے بعد بارش برسانے کا ذکر ہوا ہے۔ اس پر سوال ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس قدر مہربان ہے تو وہ بارش روک کیوں دیتا ہے؟ فرمایا، تم پر جو مصیبت بھی آتی ہے وہ تمھاری کمائی کا نتیجہ ہے۔ وہ گناہ بھی ہو سکتے ہیں اور اونچی شان والے حضرات پر اللہ تعالیٰ کے جس قدر انعامات ہیں ان کا حق ادا کرنے میں کسی طرح کی کمی بھی۔ اس لیے پیغمبر بھی اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَاللّٰهِ ! إِنِّيْ لَأَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ وَ أَتُوْبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً )) [ بخاري، الدعوات، باب استغفار النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الیوم واللیلۃ : ۶۳۰۷ ] ’’اللہ کی قسم! میں دن میں ستر(۷۰) بار سے زیادہ اللہ سے استغفار اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔‘‘ انسان پر آنے والی ان مصیبتوں کا انجام مومن و کافر کے حق میں ایک جیسا نہیں ہوتا، بلکہ وہ کافر کے لیے عذاب ہوتی ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ لَنُذِيْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ﴾ [ السجدۃ : ۲۱ ] ’’اور یقیناً ہم انھیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔ ‘‘ اور مومن کے لیے گناہوں کی معافی، اجر اور درجات کی بلندی کا باعث بنتی ہیں۔ ابوسعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا يُصِيْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ، وَلاَ وَصَبٍ، وَلاَ هَمٍّ ، وَلاَ حُزْنٍ، وَلاَ أَذًی، وَلاَ غَمٍّ، حَتَّی الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا، إِلاَّ كَفَّرَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ )) [بخاري، المرضٰی، باب ما جاء في کفارۃ المرض : ۵۶۴۱، ۵۶۴۲ ] ’’مومن کو جو بھی دکھ یا چوٹ یا فکر یا حزن یا تکلیف یا غم پہنچتا ہے، حتیٰ کہ کانٹا بھی جو اسے لگتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کے کچھ گناہ دور فرما دیتا ہے۔‘‘ یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ بچے اور دیوانے پر آنے والی مصیبتیں بھی کیا ان کے اعمال کا نتیجہ ہیں؟ جواب یہ ہے کہ آیت میں خطاب ان لوگوں سے ہے جو مکلف ہیں، بچے اور دیوانے مکلف ہی نہیں، نہ ان پر آنے والی مصیبتیں ان کے گناہوں کی وجہ سے آتی ہیں، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت آتی ہیں، جسے وہی بہتر جانتا ہے۔ بیماری اور مصیبت کے اجر اور درجات کی بلندی کا باعث بننے کی دلیل قرآن مجید کی آیات، مثلاً سورۂ توبہ کی آیت (۱۲۰) کے علاوہ بہت سی احادیث بھی ہیں۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بخار میں تپ رہے تھے۔ میں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! آپ کو بہت سخت بخار ہوتا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَجَلْ، إِنِّيْ أُوْعَكُ كَمَا يُوْعَكُ رَجُلاَنِ مِنْكُمْ، قُلْتُ ذٰلِكَ بِأَنَّ لَكَ أَجْرَيْنِ ؟ قَالَ أَجَلْ ذٰلِكَ كَذٰلِكَ، مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيْبُهُ أَذًی، شَوْكَةٌ فَمَا فَوْقَهَا إِلاَّ كَفَّرَ اللّٰهُ بِهَا سَيِّئَاتِهِ، كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا )) [ بخاري، المرضٰی، باب أشد الناس بلاء الأنبیاء ثم الأمثل فالأمثل : ۵۶۴۸ ] ’’ہاں، مجھے اتنا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو ہوتا ہے۔‘‘ میں نے کہا : ’’یہ اس لیے کہ آپ کو دو اجر ملتے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہاں! یہی بات ہے، جس مسلم کو بھی کوئی تکلیف پہنچے، کانٹاہو یا اس سے اوپر، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اس کی برائیاں گرا دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتے گرا دیتا ہے۔‘‘ 2۔ وَ يَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ نحل (۶۱) اور سورۂ فاطر (۴۵) کی تفسیر۔