وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَيَزِيدُهُم مِّن فَضْلِهِ ۚ وَالْكَافِرُونَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ
اور ان لوگوں کی دعا قبول کرتا ہے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور انھیں اپنے فضل سے زیادہ دیتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے۔
1۔ وَ يَسْتَجِيْبُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: اجابت کا معنی قبول کرنا ہے اور استجابت میں ’’سین‘‘ مبالغے کے لیے ہے۔ یہ لفظ کسی حکم پر بہت جلد عمل کرنے یا کسی دعوت پر بہت جلدی لبیک کہنے یا کسی دعا کو بہت جلدی قبول کرنے کے لیے آتا ہے۔ (ابن عاشور) یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی دعا بہت جلد اور خوشی سے قبول فرماتا ہے جو ایمان اور عمل صالح سے متصف ہوتے ہیں۔ (دیکھیے بقرہ : ۱۸۶،۲۱۸) ان معنوں میں کفار کی دعا قبول ہوتی ہی نہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ مَا دُعَآءُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ ﴾ [ الرعد : ۱۴ ] ’’اور نہیں ہے کافروں کا پکارنا مگر سراسر بے سود۔‘‘ ہاں رسی دراز کرنے کے لیے اور حجت تمام کرنے کے لیے کفار کی بھی دعائیں قبول ہوتی ہیں، مگر وہ استجابت نہیں استدراج ہے اور ناراضی کی علامت ہے، جیسا کہ ابلیس نے آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو گمراہ کرنے کے لیے مہلت مانگی تو اسے دے دی گئی۔ 2۔ وَ يَزِيْدُهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ: اس میں دو چیزیں شامل ہیں، ایک یہ کہ صالح اعمال والے مومن اپنی دعا اور عملِ صالح سے جو امید رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں وہ بھی دیتا ہے اور ان کی امید سے کہیں زیادہ بھی عطا فرماتا ہے۔ اسی طرح ان کا ہر عمل قبول بھی کرتا ہے اور اسے دس گنا سے سات سو گنا تک یا بلاحساب تک بڑھا بھی دیتا ہے۔ دوسری یہ کہ انھیں اپنے فضل سے مزید وہ کچھ بھی عطا کرتا ہے جس کی درخواست انھوں نے نہیں کی ہوتی، کیونکہ وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے اور ان کی ضروریات سے پوری طرح آگاہ ہے۔ 3۔ وَ الْكٰفِرُوْنَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ: یہ قرآن مجید کا عام طریقہ ہے کہ ترغیب کے ساتھ ترہیب بھی ہوتی ہے۔ یعنی جو لوگ توبہ کے بجائے کفر پر اصرار کرتے اور اسی حالت میں مر جاتے ہیں ان کے لیے شدید عذاب ہے۔