وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ
اور جو لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، اس کے بعد کہ اس کی دعوت قبول کرلی گئی، ان کی دلیل ان کے رب کے نزدیک باطل ہے اور ان پر بڑا غضب ہے اور ان کے لیے بہت سخت سزا ہے۔
1۔ وَ الَّذِيْنَ يُحَآجُّوْنَ فِي اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ ....: ’’ دَاحِضَةٌ ‘‘ ’’دَحَضَ يَدْحَضُ دَحْضًا و دُحُوْضًا ‘‘ (ف) ’’دَحَضَتِ الْحُجَّةُ‘‘ دلیل باطل ہونا اور ’’دَحَضَتِ الرِّجْلُ‘‘ پاؤں کا پھسل جانا۔ ’’حُجَّةٌ‘‘ کا معنی جھگڑا بھی ہے اور دلیل بھی۔ پچھلی آیت میں فرمایا : ﴿ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ ﴾ کہ ’’ہمارے درمیان اور تمھارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں‘‘ کیونکہ جو بات حق تھی وہ ہم نے تمھیں پہنچا دی، اب جھگڑے کا کوئی فائدہ نہیں، اس آیت میں فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کی بات قبول کر لی گئی، اس کا حق ہونا واضح ہو گیا، حتیٰ کہ بہت سے سمجھ دار لوگ اسے قبول کر چکے اور بہت سے دل میں تسلیم کر چکے ہیں تو لوگ اب بھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں خواہ مخواہ جھگڑ رہے ہیں اور اپنے خیال میں بڑی مضبوط دلیلیں لا رہے ہیں، کبھی اس کی توحید میں بحث کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اَجَعَلَ الْاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا ﴾ [صٓ : ۵ ] ’’کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا ڈالا؟‘‘ کبھی اس کی دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کے بارے میں جھگڑتے ہیں،جیسا کہ فرمایا : ﴿مَنْ يُّحْيِ الْعِظَامَ وَ هِيَ رَمِيْمٌ ﴾ [ یٰسٓ : ۷۸ ] ’’کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا، جب کہ وہ بوسیدہ ہوں گی؟ ‘‘ کبھی اس کے انسان کو رسول بنا کر بھیجنے کے بارے میں جھگڑتے ہیں، فرمایا : ﴿ وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ ﴾ [الفرقان : ۷ ] ’’اور انھوں نے کہا اس رسول کو کیا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔‘‘ کبھی اس کے شرکاء بنانے کے جواز میں اپنے معبودوں کو اللہ کے ہاں سفارشی اور اس کے قریب کرنے والے قرار دیتے ہیں، فرمایا : ﴿ هٰؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِ﴾ [ یونس : ۱۸ ] ’’یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَا اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى﴾ [ الزمر : ۳ ] ’’ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں۔‘‘ ان کی مزعومہ یہ اور اس جیسی سب دلیلیں اللہ تعالیٰ کے ہاں باطل اور بے کار ہیں، انھیں اس جھگڑے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ 2۔ وَ عَلَيْهِمْ غَضَبٌ: ’’ غَضَبٌ ‘‘ پر تنوین تعظیم کی ہے، یعنی ان پر بھاری غضب ہے۔ 3۔ وَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ: جس کا دنیا میں مظاہرہ اہلِ مکہ پر مسلط خوف، قحط، جنگِ بدر اور دوسرے معرکوں میں ہوا اور جس کی شدت قیامت کے دن نعمان بن بشیر رضی اللہ عنھما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَرَجُلٌ تُوْضَعُ فِيْ أَخْمَصِ قَدَمَيْهِ جَمْرَةٌ يَغْلِيْ مِنْهَا دِمَاغُهُ )) [ بخاري، الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار : ۶۵۶۱ ] ’’قیامت کے دن آگ والوں میں سب سے ہلکے عذاب والا شخص وہ ہو گا جس کے دونوں پاؤں کے تلوؤں میں ایک انگارا رکھا جائے گا، جس سے اس کا دماغ کھول رہا ہو گا۔‘‘