قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ
بلاشبہ تم سے پہلے بہت سے طریقے گزر چکے، سو زمین میں چلوپھرو، پھر دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ: اوپر کی آیات میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر اور ان کی نافرمانی سے توبہ پر بخشش اور جنت کا وعدہ فرمایا، اب یہاں اطاعت اور توبہ کی ترغیب کے لیے پہلی امتوں کی تاریخ پر غور و فکر کا حکم دیا ہے، تاکہ ان میں سے مطیع اور نافرمان کے احوال پر غور کر کے انسان اپنے لیے سامانِ عبرت حاصل کرے۔ ’’سُنَنٌ ‘‘ کا مفرد ’’سُنَّةٌ ‘‘ ہے، اس کے معنی طریق مستقیم اور اس نمونے کے ہیں جس کا اتباع کیا جاتا ہے۔ یہ ’’فُعْلَةٌ ‘‘ بمعنی ’’مَفْعُوْلَةٌ ‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل چونکہ مسلمان کے لیے نمونہ اورطریق مستقیم ہوتا ہے، اس لیے اسے سنت کہتے ہیں۔ جنگ احد میں جب ستر مسلمان شہید اور کچھ زخمی ہوئے تو اس شکست سے مسلمانوں کو قدرتی طور پر بہت تکلیف ہوئی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تسلی دی کہ اس شکست سے افسردہ خاطر نہیں ہونا چاہیے کہ یہ بات تو پہلی امتوں اور انبیاء کے متبعین میں بھی ہوتی چلی آئی ہے کہ ابتدا میں ان کو تکا لیف سے دو چار ہونا پڑااور بالآخر جھٹلانے والے ذلیل و خوار ہوئے۔ (ابن کثیر)