سورة فصلت - آیت 49

لَّا يَسْأَمُ الْإِنسَانُ مِن دُعَاءِ الْخَيْرِ وَإِن مَّسَّهُ الشَّرُّ فَيَئُوسٌ قَنُوطٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

انسان بھلائی مانگنے سے نہیں اکتاتا اور اگر اسے کوئی برائی آپہنچے تو بہت مایوس، نہایت ناامید ہوتا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لَا يَسْـَٔمُ الْاِنْسَانُ ....: یہاں سے انسانی طبیعت پر کفر و شرک اور قیامت کے انکار کا ایک بہت برا اثر ذکر فرمایا۔ ’’ الْاِنْسَانُ ‘‘ سے مراد عام انسان ہے جو ایمان و یقین کی دولت سے خالی ہو، اس میں طبعی طور پر یہ کمزوری رکھی گئی ہے۔ توحید و رسالت اور آخرت پر ایمان کے بعد اس کی اس کمزوری کا علاج ہو جاتا ہے اور ایمان جس قدر قوی ہوتا ہے اتنا ہی وہ اس کمزوری سے پاک ہوتا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا (19) اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًا (20) وَّ اِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوْعًا (21) اِلَّا الْمُصَلِّيْنَ (22) الَّذِيْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ دَآىِٕمُوْنَ ...... اُولٰٓىِٕكَ فِيْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَ ﴾ [ المعارج : ۱۹ تا ۳۵ ] ’’بلاشبہ انسان تھڑدلا بنایا گیا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والا ہے۔ اور جب اسے بھلائی ملتی ہے تو بہت روکنے والا ہے۔ سوائے نماز ادا کرنے والوں کے۔ وہ جو اپنی نماز پر ہمیشگی کرنے والے ہیں...... یہی لوگ جنتوں میں عزت دیے جانے والے ہیں۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ ہود (۹ تا ۱۱) کی تفسیر۔ مِنْ دُعَآءِ الْخَيْرِ: ’’ الْخَيْرِ‘‘ سے مراد دنیوی بھلائی ہے جس میں مال، اولاد، عزت، صحت اور قوت سبھی کچھ شامل ہے۔ ’’ دُعَآءِ ‘‘ سے مراد خیر کی طلب ہے، یعنی انسان دنیوی بھلائی کی طلب سے نہ اکتاتا ہے اور نہ تھکتا ہے، خواہ اسے اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے : (( لَوْ كَانَ لاِبْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَّالٍ لاَبْتَغٰی ثَالِثًا، وَ لاَ يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلاَّ التُّرَابُ، وَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰی مَنْ تَابَ )) [بخاري، الرقاق، باب ما یتقی من فتنۃ المال : ۶۴۳۶ ] ’’اگر ابنِ آدم کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ کوئی تیسری تلاش کرے گا اور ابن آدم کے پیٹ کو مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھرتی اور اللہ اس پر پھر مہربان ہو جاتا ہے جو واپس پلٹ آئے۔‘‘ وَ اِنْ مَّسَّهُ الشَّرُّ فَيَـُٔوْسٌ قَنُوْطٌ: ’’مَسَّ يَمَسُّ‘‘ (س) چھونا۔ ’’ فَيَـُٔوْسٌ ‘‘ ’’يَئِسَ يَيْئَسُ يَأْسًا ‘‘ (س، ح) سے مبالغے کا صیغہ ہے، بہت ناامید۔ ’’ قَنُوْطٌ ‘‘ ’’قَنِطَ يَقْنَطُ قَنُوْطًا‘‘ (س، ن) سے مبالغے کا صیغہ ہے، بہت ناامید۔ بعض مفسرین نے فرمایا ’’ فَيَـُٔوْسٌ ‘‘ اور ’’ قَنُوْطٌ ‘‘ دونوں کا معنی ایک ہے، تاکید کے لیے ’’ فَيَـُٔوْسٌ ‘‘ کے بعد ’’ قَنُوْطٌ ‘‘ لایا گیا ہے اور بعض نے فرمایا، دونوں کے معنی میں فرق ہے۔ ابوحیان نے فرمایا : ’’يَأْسٌ‘‘ دل کی حالت ہے کہ آدمی کا دل خیر کی امید سے خالی ہو جائے اور ’’قَنُوْطٌ‘‘ یہ ہے کہ ناامیدی کے آثار اس کے چہرے اور بدن پر بھی ظاہر ہو جائیں۔‘‘ ظاہر ہے یہ فرق اس وقت ہے جب یہ دونوں لفظ اکٹھے آئیں، ورنہ یاس اور قنوط دونوں میں قلبی اور بدنی ہر طرح کی ناامیدی مراد ہوتی ہے، جیسا کہ ایمان و اسلام کا معاملہ ہے۔ ’’مَسٌّ‘‘ (چھونے) کے لفظ سے معلوم ہوا کہ کافر اتنا بے حوصلہ ہوتا ہے کہ برائی چھو جانے ہی سے آخری حد تک امید توڑ بیٹھتا ہے۔ مومن ایسا نہیں ہوتا، یہ صرف کافر کا حال ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّهٗ لَا يَايْـَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ ﴾ [یوسف : ۸۷] ’’بے شک حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جو کافر ہیں۔ ‘‘