سورة فصلت - آیت 44

وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ۖ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ۗ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۚ أُولَٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اگر ہم اسے عجمی قرآن بنا دیتے تو یقیناً وہ کہتے اس کی آیات کھول کر کیوں نہ بیان کی گئیں، کیا عجمی زبان اور عربی (رسول)؟ کہہ دے یہ ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہدایت اور شفا ہے اور وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے اور یہ ان کے حق میں اندھا ہونے کا باعث ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں بہت دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَوْ جَعَلْنٰهُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِيًّا....: سورت کے شروع میں ذکر فرمایا کہ ’’رحمان و رحیم کی طرف سے یہ ایسی کتاب نازل کی گئی ہے جس کی آیات کھول کر بیان کی گئی ہیں، جو عربی قرآن ہے، ان لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں۔‘‘ مشرکینِ مکہ جو عرب تھے ان کا حق تھا کہ اپنی زبان میں اترنے والی کتاب کو سنتے اور اس پر غور و فکر کرتے، تو اس کے نتیجے میں انھیں ایمان کی دولت بھی نصیب ہو جاتی، مگر انھوں نے اپنی زبان میں ہونے کے باوجود اپنے کانوں، آنکھوں اور دلوں کے دریچے اس کے لیے بند کر دیے اور کہنے لگے : ﴿ قُلُوْبُنَا فِيْ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَا اِلَيْهِ وَ فِيْ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّ مِنْۢ بَيْنِنَا وَ بَيْنِكَ حِجَابٌ ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۵ ] ’’ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں جس کی طرف تو ہمیں دعوت دیتا ہے اور ہمارے کانوں میں بھاری بوجھ ہے اور ہمارے درمیان اور تیرے درمیان بھاری پردہ ہے۔‘‘ بلکہ انھوں نے عملاً طے کر لیا کہ یہ عربی قرآن نہ خود سنیں گے اور نہ کسی کو سننے دیں گے، جیسا کہ اسی سورت میں ہے : ﴿ وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ الْغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ﴾ [حٰمٓ السجدۃ : ۲۶ ] ’’ اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، اس قرآن کو مت سنو اور اس میں شور کرو، تاکہ تم غالب رہو۔‘‘ اب انھیں قائل کرنے کے لیے ایک صورت رہ جاتی تھی کہ قرآن عربی زبان کے بجائے کسی اور زبان میں اتارا جاتا، جس سے انھیں یقین ہو جائے کہ یہ عربی رسول جو عجمی زبان جانتا ہی نہیں، عجمی قرآن لے کر آیا ہے، تو یہ اللہ کی طرف سے معجزہ ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ایسا ہوتا، پھر بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے، بلکہ نہ ماننے کے لیے ایک اور بہانہ پیش کر دیتے، کیونکہ جو طے کر چکا ہو کہ میں نے ماننا ہی نہیں اسے منوانے کی کوئی صورت نہیں۔ ہمارے شیخ محمد عبدہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’یہ کفارِ مکہ بھی عجیب شے ہیں، اگر ان کے پاس انھی میں سے ایک آدمی عربی میں قرآن لے کر آیا ہے تو کہتے ہیں کہ ایک عرب کا عربی قرآن پیش کرنا کوئی کمال نہیں، کمال تو اس وقت ہوتا جب یہ شخص کسی عجمی زبان فارسی، رومی یا ترکی میں قرآن پیش کرتا۔ حالانکہ اگر ہم ان کا مطالبہ مان لیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی عجمی زبان میں قرآن نازل کر دیتے تو یہی لوگ اس وقت اعتراض کرتے کہ یہ عجیب معاملہ ہے کہ پیغمبر تو عربوں کو دعوت دینے کے لیے بھیجا گیا ہے، لیکن قرآن ایسی زبان میں لے کر آیا ہے جسے عرب سمجھ بھی نہیں سکتے۔‘‘ (اشرف الحواشی) قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّ شِفَآءٌ: اس کی تفسیر گزر چکی ہے، دیکھیے سورۂ یونس (۵۷) اور سورۂ بنی اسرائیل (۸۲)۔ وَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ....: یعنی قرآن اگرچہ رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے، لیکن وہ ان کافروں کے حق میں کانوں کا بوجھ اور آنکھوں کا پردہ ہے۔ اس کی وجہ ان کی اپنی ہٹ دھرمی اور تعصب ہے، اس میں قرآن کا کوئی قصور نہیں ہے، بالکل اسی طرح جیسے سورج روشنی دینے والی چیز ہے، لیکن اس کے طلوع ہوتے ہی چمگادڑ کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ اُولٰٓىِٕكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍۭ بَعِيْدٍ: یہ ایک محاورہ ہے اور اس شخص کے حق میں استعمال ہوتا ہے جو کوئی بات نہ سمجھتا ہو۔ (قرطبی) یعنی یہ لوگ قرآن کو دل سے سننے کی کوشش نہیں کرتے، صرف اوپرے دل سے سنتے ہیں، اس لیے اس سے کوئی ہدایت نہیں پاتے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی شخص کو دور سے پکارا جائے اور وہ آواز تو محسوس کرے مگر مطلب مراد کچھ نہ سمجھے۔