إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ
بے شک وہ لوگ جنھوں نے اس نصیحت کے ساتھ کفر کیا، جب وہ ان کے پاس آئی ( وہ بھی ہم پر مخفی نہیں ہیں) اور بلاشبہ یہ یقیناً ایک باعزت کتاب ہے۔
1۔ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَآءَهُمْ: زمخشری نے فرمایا : ’’یہ جملہ ’’ اِنَّ الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْ اٰيٰتِنَا ‘‘ سے بدل ہے۔‘‘ (کشاف) اس لیے اس کی خبر وہی ہے جو پہلے جملے کی خبر ہے اور وہ ہے ’’ لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ‘‘ اس صورت میں محذوف خبر نکالنے کی ضرورت نہیں، گویا عبارت اس طرح ہوئی کہ ’’یقیناً وہ لوگ جو ہماری آیات کے بارے میں ٹیڑھے چلتے ہیں، جنھوں نے اس نصیحت کا اسی وقت انکار کر دیا جب وہ ان کے پاس آئی، وہ ہم پر مخفی نہیں ہیں۔‘‘ بعض مفسرین نے فرمایا ’’ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَآءَهُمْ ‘‘ کی خبر محذوف ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں، مقام کی مناسبت سے محذوف خبر ’’ يُجْزَوْنَ عَلٰي كُفْرِهِمْ‘‘ یا اس سے ملتی جلتی ہو گی۔ یعنی وہ لوگ جنھوں نے اس نصیحت کے ساتھ کفر کیا جب وہ ان کے پاس آئی انھیں ان کے کفر کی جزا دی جائے گی۔ 2۔ ’’ بِالذِّكْرِ ‘‘ سے مراد قرآن کریم ہے، جیسا کہ آگے اس کی صفات بیان ہو رہی ہیں۔ 3۔ لَمَّا جَآءَهُمْ: یعنی انھوں نے قرآن مجید کی آیات کا نزول ہوتے ہی ان کا انکار کر دیا، غور سے سننے اور سوچنے سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ 4۔ وَ اِنَّهٗ لَكِتٰبٌ عَزِيْزٌ: ’’ عَزِيْزٌ ‘‘ کے دو معنی ہیں، ایک یہ کہ یہ سب پر غالب ہے، زبان و بیان میں، دلیل و برہان میں، علم و حکمت میں، صدق و حقانیت میں، غرض ہر لحاظ سے یہ دوسری ہر کتاب پر غالب اور زبردست ہے، دوسری سب کتب اس کے مقابلے میں زیر ہیں۔ ’’ عَزِيْزٌ ‘‘ کا دوسرا معنی ہے عدیم النظیر، بے مثال، کیونکہ پوری کائنات اس کی ایک سورت کی مثال لانے سے عاجز ہے۔