إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ أَفَمَن يُلْقَىٰ فِي النَّارِ خَيْرٌ أَم مَّن يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
بے شک وہ لوگ جو ہماری آیات کے بارے میں ٹیڑھے چلتے ہیں، وہ ہم پر مخفی نہیں رہتے، تو کیا وہ شخص جو آگ میں پھینکا جائے بہتر ہے، یا جو امن کی حالت میں قیامت کے دن آئے؟ تم کرو جو چاہو، بے شک وہ اسے جو تم کر رہے ہو خوب دیکھنے والا ہے۔
1۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْ اٰيٰتِنَا: ’’ يُلْحِدُوْنَ ‘‘ کا مادہ ’’لَحْدٌ‘‘ ہے۔ لحد اس قبر کو کہتے ہیں جو نیچے سیدھی کھودنے کے بجائے کچھ نیچے جا کر ایک طرف کھود کر بنائی جاتی ہے۔ ’’ إِلْحَادٌ ‘‘ کا معنی ہے سیدھے راستے سے انحراف، یعنی ایک طرف کو ہٹ جانا، کج روی اور ٹیڑھا چلنا، یعنی جو لوگ حق سے ہٹ کر ٹیڑھی راہ اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آیات میں الحاد (ٹیڑھا چلنا) یہ ہے کہ ان کا انکار کر دے، یا ان کا سیدھا سادا اور واضح مطلب لینے کے بجائے غیر متعلق بحثیں کرے اور انھیں غلط مطلب پہنانے کی کوشش کرے۔ جو لوگ مسلمان ہو کر باطل نظریات مثلاً مشرکانہ عقائد، بدعت، انکارِ حدیث، اشتراکیت، سرمایہ داری اور دہریت وغیرہ کے حامی بن جاتے ہیں وہ یہی طرز اختیار کرتے ہیں، خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ یہاں آیاتِ الٰہی میں کج روی اختیار کرنے والوں کے لیے وعید آئی ہے اور سورۂ اعراف کی آیت (۱۸۰) میں اسمائے الٰہی میں کج روی اختیار کرنے والوں سے علیحدگی کا حکم اور ایسے لوگوں کا انجام بیان فرمایا ہے۔ 2۔ لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا: یہ پہلی شدید وعید ہے جو یہاں آیاتِ الٰہی میں ٹیڑھا چلنے والوں کے لیے آئی ہے کہ یہ لوگ ہم پر مخفی نہیں ہیں، بلکہ ہر لمحے ہماری نگاہ میں ہیں اور ہماری گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ ہم اگر ان کے عذاب میں تاخیر کر رہے ہیں اور انھیں مہلت دے رہے ہیں تو اس لیے کہ جلدی تو وہ کرے جسے خطرہ ہو کہ مجرم رو پوش ہو جائے گا اور قابو سے نکل جائے گا۔ مطلب یہ کہ ہم انھیں اس الحاد کی سزا ضرور دیں گے۔ 3۔ اَفَمَنْ يُّلْقٰى فِي النَّارِ خَيْرٌ اَمْ مَّنْ يَّاْتِيْ اٰمِنًا يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ: یہ دوسری دھمکی ہے کہ آیاتِ الٰہی کا مطلب توڑنے مروڑنے والے اور ان کے بارے میں ٹیڑھے چلنے والے آگ میں پھینکے جائیں گے اور آیاتِ الٰہی میں الحاد سے اجتناب کرنے والے قیامت کے دن امن کی حالت میں آئیں گے۔ تو بتاؤ، جو آگ میں پھینکا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن کی حالت میں آئے گا؟ 4۔ اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ ....: یہ تیسری دھمکی ہے، ’’کرو جو چاہو‘‘ کا مطلب اپنی مرضی کرنے کی اجازت دینا نہیں بلکہ ڈانٹ ہے کہ اس مہلت میں تم جو چاہو کر لو، پھر اس کی سزا کے لیے ہم جو چاہیں گے کریں گے۔ تمھارے ہر عمل کو ہم خوب دیکھ رہے ہیں، یہ خیال نہ کرنا کہ تم اپنے کسی عملِ بد کی سزا سے اس لیے بچ جاؤ گے کہ وہ ہماری نگاہ سے اوجھل ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی عظیم فرماں روا اپنے کچھ غلاموں پر ناراض ہو کر شدید غصے سے کہے، جو چاہو کرو۔