سورة آل عمران - آیت 134

الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ: ان آیات میں اہل جنت کی صفات کا ذکر ہے، چنانچہ ان کی پہلی صفت یہ ہے کہ خوش حالی اور تنگ دستی ہر حالت میں وہ اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں اور نیک کاموں اور رضائے الٰہی کے لیے مال صرف کرنے سے انھیں کوئی چیز غافل نہیں کرتی۔ (ابن کثیر) وَ الْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ: ان کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ غصہ سے مغلوب ہونے کے بجائے اس پر قابو پا لیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پہلوان ہرگز وہ نہیں جو بہت زیادہ پچھاڑ دینے والا ہو، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔‘‘ [ بخاری، الأدب، باب الحذر من الغضب: ۶۱۱۴، عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی : ’’مجھے وصیت فرمائیے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لاَ تَغْضَبْ))’’غصہ مت کر۔‘‘اس نے کئی دفعہ درخواست دہرائی، آپ نے یہی فرمایا: (( لاَ تَغْضَبْ)) ’’غصہ مت کر۔‘‘ [ بخاری، الأدب، باب الحذر من الغضب : ۶۱۱۶۔ ترمذی : ۲۰۲۰ ] وَ الْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ: یہ دراصل غصہ پی جانے کا لازمی تقاضا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تین چیزوں پر میں قسم کھاتا ہوں، صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ معاف کر دینے سے بندے کی عزت میں اضافہ ہی کرتا ہے اور جو اللہ کے لیے نیچا ہوتا ہے اللہ اسے اونچا کر دیتا ہے۔‘‘ [مسلم، البر والصلۃ، باب استحباب العفو : ۲۵۸۸۔ عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ۔ ترمذی: 2325 ] اور یہ احسان کا مقام ہے اور اللہ محسنین سے محبت رکھتا ہے۔