فَلَنُذِيقَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا عَذَابًا شَدِيدًا وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ
سو یقیناً ہم ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا، ضرور بہت سخت عذاب چکھائیں گے اور یقیناً ہم انھیں ان بد ترین اعمال کا بدلہ ضرور دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔
1۔ فَلَنُذِيْقَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَذَابًا شَدِيْدًا: چونکہ یہ ان کا صریح ظلم اور عناد تھا اور ان کی ہدایت کی امید ہی نہ تھی، اس لیے عبرت ناک سزا اور عذاب کے سوا ان کی کوئی جزا نہ تھی۔ ’’ فَلَنُذِيْقَنَّ ‘‘ کی فاء تعلیل کے لیے ہے، یعنی ان کے قرآن سننے سے روکنے کی وجہ سے ہم انھیں شدید عذاب چکھائیں گے۔ 2۔ ’’فَلَنُعَذِّبَنَّ‘‘ (ہم انھیں ضرور عذاب دیں گے) کے بجائے ’’ فَلَنُذِيْقَنَّ ‘‘ (ہم انھیں ضرور چکھائیں گے) کا لفظ استعمال فرمایا، کیونکہ جو چیز چکھی جاتی ہے وہ معمولی سی زبان پر لگتی ہے، تو جس کا معمولی سا لگنا اتنا سخت ہو گا وہ پورا عذاب کس قدر سخت ہو گا۔ 3۔ وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ اَسْوَاَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ: کفار نے اگرچہ بے شمار گناہ کیے ہوں گے، مثلاً چوری، زنا وغیرہ، مگر ان کے سب سے برے اعمال کفر و شرک اور دوسروں کو ایمان سے روکنا تھے۔ چنانچہ انھیں ملنے والی سزا کفر و شرک اور ایمان سے روکنے کے پیمانے کے مطابق ہو گی، جس کے مقابلے میں دوسرے گناہوں کی سزا کی کچھ حقیقت نہیں ہو گی۔