وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِن بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ
اور انھوں نے کہا ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے اور ہمارے کانوں میں ایک بوجھ ہے اور ہمارے درمیان اور تیرے درمیان ایک حجاب ہے، پس تو عمل کر، بے شک ہم بھی عمل کرنے والے ہیں۔
1۔ وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْ اَكِنَّةٍ ....:’’ اَكِنَّةٍ‘‘ ’’ كِنَانٌ‘‘ کی جمع ہے، پردہ، جیسا کہ ’’غِطَاءٌ‘‘ کی جمع ’’أَغْطِيَةٌ ‘‘ ہے۔ ترکش، یعنی تیروں کا تھیلا جس میں تیر چھپے ہوتے ہیں’’كِنَانَةٌ‘‘ کہلاتا ہے۔ ’’وَقْرٌ‘‘ کا اصل معنی ’’بوجھ‘‘ ہے، مراد بہرا پن ہے۔ 2۔ فرمایا، کفار کا آیاتِ الٰہی سے اعراض اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ صرف یہ نہیں کہ وہ سنتے نہیں یا منہ موڑ کر چلے جاتے ہیں، بلکہ ان کی نفرت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ انھوں نے واشگاف الفاظ میں اس کا اظہار کیا اور اس کی تین وجہیں بیان کیں۔ پہلی یہ کہ تم ہمیں جس بات کی طرف دعوت دیتے ہو ہمارے دل اس سے بھاری پردوں میں محفوظ ہیں۔ (اَكِنَّةٍ کی تنوین تعظیم کے لیے ہے) وہ دعوت ہمارے دلوں تک پہنچتی ہی نہیں۔ دوسری یہ کہ ہمارے کانوں میں بھاری بوجھ ہے۔ (وَقْرٌ کی تنوین تعظیم کے لیے ہے) وہ تمھاری بات سننے سے شدید بہرے ہیں اور تیسری یہ کہ ہمارے اور تمھارے درمیان بھاری پردہ ہے۔ غرض، ہماری آنکھیں یا کان یا دل تمھاری کوئی بھی بات سننے یا سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ کفار نے یہ بات اپنی خوبی کے طور پر بیان کی۔ سورۂ بقرہ میں ہے : ﴿وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيْلًا مَّا يُؤْمِنُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۸۸ ] ’’اور انھوں نے کہا ہمارے دل غلاف میں (محفوظ) ہیں، بلکہ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کر دی، پس وہ بہت کم ایمان لاتے ہیں۔‘‘ 3۔ وَ مِنْۢ بَيْنِنَا وَ بَيْنِكَ حِجَابٌ: بقاعی نے اس ’’ مِنْ‘‘ سے تبعیض کا مفہوم اخذ کیا ہے کہ ہمارے اور تمھارے درمیان کے بعض معاملات میں ایک پردہ ہے، یعنی ایک دوسرے کے دنیوی معاملات تو ہم دیکھتے، سنتے اور سمجھتے ہیں، مگر دین کے معاملات میں ہمارے اور تمھارے درمیان بھاری پردہ ہے، لہٰذا تم اپنے دین پر عمل کرو اور ہم اپنے دین پر عمل کرنے والے ہیں۔ 4۔ دوسری جگہ فرمایا کہ ان کے دلوں، آنکھوں اور کانوں پر یہ پردے ہم نے ڈالے ہیں اور اس کی وجہ خود ان کا اعراض اور گریز ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ فَاَعْرَضَ عَنْهَا وَ نَسِيَ مَا قَدَّمَتْ يَدٰهُ اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ يَّفْقَهُوْهُ وَ فِيْ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا وَ اِنْ تَدْعُهُمْ اِلَى الْهُدٰى فَلَنْ يَّهْتَدُوْا اِذًا اَبَدًا ﴾ [ الکہف : ۵۷ ] ’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اس کے رب کی آیات کے ساتھ نصیحت کی گئی تو اس نے ان سے منہ پھیر لیا اور اسے بھول گیا جو اس کے دونوں ہاتھوں نے آگے بھیجا تھا، بے شک ہم نے ان کے دلوں پر پردے بنا دیے ہیں، اس سے کہ اسے سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ رکھ دیا ہے اور اگر تو انھیں سیدھی راہ کی طرف بلائے تو اس وقت وہ ہرگز کبھی راہ پر نہ آئیں گے۔‘‘ اور ضد اور عناد کی وجہ سے مخالفت پر ڈٹ جانے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے، فرمایا : ﴿ وَ مَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ وَ سَآءَتْ مَصِيْرًا﴾ [ النساء : ۱۱۵ ] ’’اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت خوب واضح ہو چکی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ﴾ [الصف : ۵ ] ’’پھر جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیے۔‘‘ 5۔ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ: بار بار دعوت اور نصیحت سے امید ہوتی ہے کہ شاید کسی وقت ہی اثر کر جائے، اس لیے کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری طرح مایوس کرنے کے لیے یہ جملہ کہا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ کفار کو ’’ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَ لِيَ دِيْنِ ‘‘ (تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین ہے) کہہ کر اس بات سے پوری طرح مایوس کر دیں کہ آپ ان کے معبودوں کی کبھی کسی صورت میں بھی عبادت کر سکتے ہیں۔ (دیکھیے کافرون : ۶)