سورة غافر - آیت 79

اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَنْعَامَ لِتَرْكَبُوا مِنْهَا وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ وہ ہے جس نے تمھارے لیے چوپائے بنائے، تاکہ ان میں سے بعض پر تم سوار ہو اور انھی میں سے بعض کو تم کھاتے ہو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا ....: ’’ جَعَلَ ‘‘ یہاں ’’خَلَقَ‘‘ کے معنی میں ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ ﴾ [ الأنعام : ۱ ] ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیروں اور روشنی کو بنایا۔‘‘ ’’ الْاَنْعَامَ ‘‘ ’’نَعَمٌ‘‘ (نون اور عین کے فتحہ کے ساتھ) کی جمع ہے، اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکریاں، نر و مادہ دونوں۔ (دیکھیے انعام : ۱۴۲، ۱۴۳) یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ عموماً یہ لفظ اونٹوں پر بولا جاتا ہے۔ اس آیت میں مذکور زیادہ تر منافع اونٹوں کے بیان ہوئے ہیں۔ ان آیات کی مفصل تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ نحل (۵ تا ۸، ۶۶، ۸۰) اور سورۂ مومنون (۲۱، ۲۲)۔ 2۔ ’’ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا ‘‘ میں جانوروں پر سواری کا ذکر فرمایا، پھر اس سے اگلی آیت میں کشتیوں کے ساتھ ساتھ دوبارہ ان پر سواری کا ذکر فرمایا۔ بعض مفسرین نے اس میں یہ حکمت بیان فرمائی ہے کہ ’’ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا ‘‘ میں عام شہروں اور بستیوں کے درمیان معمول کی سواری مراد ہے اور ’’ تُحْمَلُوْنَ ‘‘ سے مراد دور دراز کے سفر ہیں۔ (ابن عطیہ) (واللہ اعلم) 3۔ مفسر عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں : ’’کفارِ مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طرح طرح کے حسی معجزات کا مطالبہ کیا کرتے تھے، جس کا ایک جواب تو سابقہ آیت میں دیا گیا ہے کہ ایسا معجزہ پیش کرنا رسول کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ان آیات میں کفار کے اسی مطالبے کا دوسرا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں تمھیں اپنے دائیں بائیں، اندر باہر اور اوپر نیچے ہر طرف ہی مل سکتی ہیں۔ اگر تم سوچو تو تمھارے راہِ راست کو قبول کرنے کے لیے راہنمائی ان میں بھی موجود ہے۔ مثلاً جو مویشی تم پالتے ہو ان پر بھی نظر ڈال کر دیکھ لو، ان کی ساخت اور ان کی فطرت ہی ہم نے ایسی بنا دی ہے کہ وہ فوراً تمھارے تابع بن جاتے ہیں، پھر ان سے تم ہزاروں قسم کے فوائد حاصل کرتے ہو۔ ان کے دودھ سے بالائی، مکھن، پنیر، گھی اور لسی بناتے ہو اور یہ چیزیں تمھارے جسم کا انتہائی اہم جزو ہیں۔ پھر تم ان پر سواری کرتے ہو۔ تمھارے بوجھل سامان کو یہ اٹھاتے ہیں، تمھاری کھیتی میں ہل یہ چلاتے ہیں، کنویں سے پانی یہ کھینچتے ہیں، تم مشقت کے سب کام ان سے لیتے ہو۔ پھر ان کو ذبح کرکے ان کا گوشت بھی کھاتے ہو، ان کے بالوں سے پوشاک تیار کرتے ہو اور مرنے کے بعد ان کی ہڈیوں، کھالوں اور دانتوں تک کو اپنے کام میں لاتے ہو۔ ان مویشیوں میں انسان کے لیے یہ خوئے غلامی کس نے پیدا کی؟ تمھاری پیدائش سے بھی پہلے تمھاری ضروریات کا اس قدر خیال رکھنے والا کون ہے؟ اب دوسری طرف نظر ڈالو، زمین کے تین چوتھائی حصے پر پانی یا سمندر پھیلے ہوئے ہیں، خشکی صرف چوتھا حصہ ہے، جس پر تم اور تمھارے مویشی سب رہتے ہیں۔ اتنے سے خشکی کے حصے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا پانی کا ذخیرہ کیوں پیدا کر دیا؟ کیا کبھی تم نے اللہ کی اس نشانی پر غور کیا؟ پھر پانی اور ہواؤں کو ایسے طبعی قوانین کا پابند کر دیا کہ تم دریاؤں اور سمندروں میں کشتی بانی اور جہاز رانی کے قابل ہو گئے۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کے لیے طبعی قوانین ہی بدل ڈالے اور وہ ہر چیز کا خالق ہے اور اس میں جیسے چاہے تصرف کر سکتا ہے، تو کیا تم جہاز رانی کر سکتے تھے، یا اس زمین پر زندہ رہ سکتے تھے؟ پھر یہ بھی سوچو کہ جس حکمتوں والے پروردگار نے اپنی اتنی بے شمار چیزیں تمھارے تصرف میں دے رکھی ہیں، کیا وہ انسان کو اتنے اختیارات دے کر اس کو یونہی چھوڑ دے گا اور اس سے اپنی نعمتوں کا کبھی حساب نہ لے گا؟ اور یہ نہ پوچھے گا کہ جس رحیم پروردگار نے تمھاری جملہ ضروریات کا اس قدر خیال رکھا، پھر اس کے ساتھ اپنی رحمتیں بھی نازل فرماتا رہا تو کیا انسان نے اللہ کی ان نعمتوں کی قدر کی اور اس کا شکریہ ادا کیا، یا وہ نمک حرام اور ناشکرا ثابت ہوا اور اپنی نیاز مندیاں اللہ کے بجائے دوسروں کے سامنے نچھاور کرنے لگا۔‘‘ ( تیسیر القرآن)