وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلَا الْمُسِيءُ ۚ قَلِيلًا مَّا تَتَذَكَّرُونَ
اور نہ اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوتا ہے اور نہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور نہ وہ جو برائی کرنے والا ہے، بہت کم تم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
1۔ وَ مَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَ الْبَصِيْرُ....: یہ بھی قیامت کی دلیل ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اندھا اور بینا برابر نہیں، اسی طرح وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے صالح عمل کیے اور جنھوں نے کفر کیا اور برے عمل کیے، دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ تو اگر قیامت کا انکار کیا جائے اور اس دن پر ایمان نہ رکھا جائے جس میں سب لوگ دوبارہ زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے اور ہر نیک و بد کو اس کی جزا یا سزا ملے گی، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ بینا و نابینا ایک ہیں اور نیک و بد برابر ہیں۔ بلکہ ایک حساب سے برے اعمال کرنے والا زیادہ فائدے میں ہے کہ وہ ساری عمر من مانی بھی کرتا رہا، دل میں آنے والی ہر بری خواہش بھی پوری کرتا رہا، اس کے باوجود کسی نے نہ اسے پوچھا نہ پوچھے گا کہ تم نے یہ ظلم و تعدی کیوں اختیار کیے رکھی۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہو سکتا، عقل سلیم اس کا انکار کرتی ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ قیامت قائم ہو اور بینا و نابینا برابر نہ ہوں اور نہ ہی نیک و بد یکساں ہوں۔ 2۔ یہاں ایک سوال ہے کہ ’’ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ‘‘ جمع ہے، جب کہ اس کا مقابل ’’ وَ لَا الْمُسِيْٓءُ ‘‘ واحد ہے، اس میں کیا حکمت ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کے بیان کا حسن ہے کہ ایک لمبی بات کو مختصر الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کے لیے ایک جانب کے الفاظ ذکر کیے گئے ہیں اور ان کے مقابل حذف کر دیے گئے ہیں۔ اسے بلاغت کی اصطلاح میں احتباک کہتے ہیں۔ گویا پوری عبارت یہ تھی : ’’وَمَا يَسْتَوِي الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ عَمِلُوا الْقَبَائِحَ وَلَا الْمُسِيْءُ وَالْمُحْسِنُ‘‘ یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے صالح عمل کیے اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور قبیح عمل کیے، وہ برابر نہیں اور نہ ہی برائی کرنے والا اور نیکی کرنے والا برابر ہیں۔ (مہائمی، کچھ تفصیل کے ساتھ) 3۔ قَلِيْلًا مَّا تَتَذَكَّرُوْنَ: منکرین قیامت کو فرمایا، تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو، حالانکہ قیامت کے دلائل بالکل واضح ہیں۔