سورة غافر - آیت 26

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَىٰ وَلْيَدْعُ رَبَّهُ ۖ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور وہ اپنے رب کو پکارلے، بے شک میں ڈرتا ہوں کہ وہ تمھارا دین بدل دے گا، یا یہ کہ زمین میں فساد پھیلادے گا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ قَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِيْ اَقْتُلْ مُوْسٰى: یہ کہہ کر فرعون ظاہر یہ کرنا چاہتا تھا کہ ابھی تک اس نے جو موسیٰ ( علیہ السلام ) کو قتل نہیں کیا تو اپنے درباریوں اور سرداروں کے روکنے کی وجہ سے نہیں کیا۔ یہ بات اس نے محض رعب گانٹھنے کے لیے یا اپنے آپ کو ہمت دلانے کے لیے کہی، کیونکہ اندر سے وہ شدید خوف زدہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے’’ وَ نَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا ‘‘ (ہم تم دونوں کے لیے غلبہ رکھیں گے، سو وہ تم تک نہیں پہنچیں گے۔ قصص :۳۵) کے فرمان کے ساتھ موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کو جو غلبہ اور رُعب عطا فرما رکھا تھا، اس کے ہوتے ہوئے اس کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ انھیں قتل کرے، یا کوئی اور نقصان پہنچائے۔ رہے درباری، تو وہ نہ تو فرعون کو موسیٰ علیہ السلام کے قتل سے روکتے تھے اور نہ ہی فرعون ان کی رائے کو پرکاہ کی وقعت دیتا تھا۔ (دیکھیے مومن : ۲۹) اس نے اپنی پوری قوم کو اتنا بے وقعت بنا دیا تھا کہ وہ ہر بات میں اس کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے، خواہ وہ عقل سے کتنی ہی دور ہو، جیسا کہ فرمایا : ﴿فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ﴾ [ الزخرف : ۵۴ ] ’’غرض اس نے اپنی قوم کو ہلکا (بے وزن) کر دیا تو انھوں نے اس کی اطاعت کر لی، یقیناً وہ نافرمان لوگ تھے۔‘‘ وَ لْيَدْعُ رَبَّهٗ: یہ بھی اس کی گیدڑ بھبکی تھی، ورنہ اسے اور اس کی قوم کو موسیٰ علیہ السلام کے معجزات دیکھ کر یقین ہو چکا تھا کہ وہ اللہ کے سچے پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ انھیں بے یار و مددگار نہیں چھوڑے گا۔ اگر اسے یہ یقین نہ ہو چکا ہوتا تو اتنی افواجِ قاہرہ کا مالک ہونے کے باوجود کس نے اس کا ہاتھ موسیٰ علیہ السلام کے قتل سے روک رکھا تھا۔ اِنِّيْ اَخَافُ اَنْ يُّبَدِّلَ دِيْنَكُمْ: دین سے مراد ان کا عقیدہ اور اس پر مبنی نظام سلطنت ہے، جس میں فرعون کو رب الاعلیٰ اور اس کے حکم کو واجب الاطاعت مانا جاتا تھا۔ یعنی مجھے خطرہ ہے کہ یہ تمھیں تمھارے اس دین اور اعتقاد کا منکر کر دے جس کے تحت تم مجھے اپنا رب سمجھ کر میری محکومی اور فرماں برداری پر مطمئن ہو اور اس طرح ملک میں انقلاب برپا کر دے، گویا میں اسے تمھاری خاطر ہی قتل کرنا چاہتا ہوں۔ اَوْ اَنْ يُّظْهِرَ فِي الْاَرْضِ الْفَسَادَ: یعنی اگر وہ تمام اہلِ مصر کو آبائی دین کا منکر نہ کر سکے تو کم از کم یہ خطرہ تو ضرور ہے کہ ان میں سے بعض لوگوں کو توحید کا قائل کرلے اور بعض میری ربوبیت اور حاکمیت کے قائل رہیں، اس سے آئے دن ملک میں فساد برپا رہے۔ یہ وہی انداز ہے جسے ہر مطلق العنان حاکم اندرونی یا بیرونی خطرے کا ہوّا کھڑا کر کے اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے اختیار کرتا ہے۔ اس ظالم کو تو دیکھیے کہ موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو، جس سے لوگ راہِ راست پر آ رہے ہیں، فساد قرار دے رہا ہے، حالانکہ اصل فسادی وہ خود ہے، جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ہے : ﴿ اَلَا اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ ﴾ [البقرۃ : ۱۲ ] ’’سن لو! یقیناً وہی تو فساد ڈالنے والے ہیں اور لیکن وہ نہیں سمجھتے۔‘‘