وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
اور بلا شبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو اپنی آیات اور واضح دلیل کے ساتھ بھیجا۔
1۔ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى....: پچھلی آیات میں پہلے انبیاء علیھم السلام کو جھٹلانے والی اقوام کے انجام کے ذکر میں جہاں موجودہ جھٹلانے والوں کے لیے عبرت اور ڈرانے کا سامان ہے وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان والوں کے لیے تسلی اور بشارت بھی ہے۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان کی مزید تسلی کے لیے موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ ذکر فرمایا، جس میں فرعون کا موسیٰ علیہ السلام اور ایمان والوں کو ڈرانا دھمکانا خاص طور پر نمایاں کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں موسیٰ علیہ السلام اور اہل ایمان کی شجاعت، ثابت قدمی اور پیش آنے والی مصیبتوں پر صبر کی تفصیل بیان فرمائی ہے، ساتھ ہی فرعون اور اس کے ساتھیوں کے عبرتناک انجام کا ذکر فرمایا ہے۔ مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حوصلہ دلانا ہے کہ آپ ان کفار کے جھٹلانے سے فکر مند نہ ہوں، آخر کار موسیٰ علیہ السلام کی طرح آپ ہی کامیاب ہوں گے، میری مدد آپ کے ساتھ ہے۔ 2۔ بِاٰيٰتِنَا: ’’آيَاتٌ‘‘ سے مراد موسیٰ علیہ السلام کے نو (۹) معجزے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۱۰۱)۔ 3۔ وَ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ:’’ سُلْطٰنٍ ‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ وہ ہیبت و رعب ہے جس کی وجہ سے فرعون اپنی فوجوں اور تمام تر قوت کے باوجود موسیٰ علیہ السلام پر ہاتھ نہ اٹھا سکا، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ نَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا﴾ [ القصص : ۳۵ ] ’’اور ہم تم دونوں کے لیے غلبہ رکھیں گے، سو وہ تم تک نہیں پہنچیں گے۔‘‘