وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ ۚ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ
اور انھیں قریب آنے والی گھڑی کے دن سے ڈرا جب دل گلوں کے پاس غم سے بھرے ہوں گے، ظالموں کے لیے نہ کوئی دلی دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی، جس کی بات مانی جائے۔
1۔ وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْاٰزِفَةِ: ’’ الْاٰزِفَةِ ‘‘ ’’أَزِفَ يَأْزَفُ‘‘ (س) سے اسم فاعل ہے۔ مؤنث اس لیے ہے کہ یہ ’’اَلسَّاعَةُ‘‘ کی صفت ہے۔ چنانچہ قیامت کے متعلق اکثر الفاظ مؤنث استعمال ہوئے ہیں، مثلاً ’’ اَلْحَاقَّةُ ، اَلْقَارِعَةُ ، اَلصَّاخَّةُ ‘‘ اور ’’ الطَّامَّةُ ‘‘ وغیرہ۔ قیامت کو ’’ الْاٰزِفَةُ‘‘ اس لیے فرمایا کہ اس کا آنا بہت قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر قیامت کے قریب آنے سے لوگوں کو خبردار فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ (57) لَيْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ كَاشِفَةٌ ﴾ [ النجم : ۵۷، ۵۸ ] ’’قریب آگئی وہ قریب آنے والی۔ جسے اللہ کے سوا کوئی ہٹانے والا نہیں۔‘‘ قیامت کے قریب آنے کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ انبیاء کی آیت (۱) : ﴿ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ﴾ کی تفسیر۔ 2۔ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كٰظِمِيْنَ: ’’الْحَنَاجِرِ‘‘ ’’حَنْجَرَةٌ‘‘ کی جمع ہے، حلق۔ ’’كٰظِمِيْنَ‘‘ ’’ كَظَمَ السِّقَاءَ‘‘ کا معنی مشکیزے کو پانی سے بھر کر اس کا منہ بند کر دینا ہے۔ یعنی شدید خوف اور غم کی وجہ سے مجرموں کے دل حلق کو پہنچے ہوئے ہوں گے، پھر وہ نہ تو اپنی جگہ واپس جائیں گے کہ انھیں کچھ آرام ملے اور نہ ہی ان کے بدن سے باہر نکلیں گے کہ موت آنے کے بعد ان کی جان چھوٹے۔ 3۔ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ حَمِيْمٍ: ’’حَمَّ يَحُمُّ‘‘ (ن) گرم کرنا۔ دلی دوست یا رشتہ دار کو ’’ حَمِيْمٍ ‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ اسے اپنے دوست یا رشتہ دار کی وجہ سے دل میں گرمی آتی ہے۔ قیامت کے دن ظالموں کا کوئی دلی دوست نہیں ہوگا، جیسا کہ فرمایا : ﴿اَلْاَخِلَّآءُ يَوْمَىِٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ ﴾ [ الزخرف : ۶۷ ] ’’سب دلی دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر متقی لوگ۔‘‘ 4۔ وَ لَا شَفِيْعٍ: ’’ظالمين‘‘ سے مراد کفار و مشرکین ہیں۔ (دیکھیے انعام : ۸۲۔ لقمان : ۱۳) ان کے حق میں کوئی بھی سفارش نہیں کرے گا، کیونکہ اس دن جو سفارش کی اجازت دی جائے گی وہ انبیاء، فرشتوں اور نیک بندوں کو دی جائے گی اور وہ بھی صرف ایمان والوں کے لیے، کفار و مشرکین کا سفارشی اس دن کوئی نہیں ہو گا۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۴۸)۔ 5۔ يُطَاعُ: ’’جس کی بات مانی جائے‘‘ یعنی اوّل تو کفار کے حق میں کوئی شفاعت کی جرأت ہی نہیں کرے گا۔ (دیکھیے انبیاء : ۳۸) اگر لا علمی یا کسی شبہ کی وجہ سے سفارش کی اجازت سمجھ کر کوئی نبی یا ولی کسی کافر کے حق میں سفارش کر بھی دے گا تو اس کی سفارش نہیں مانی جائے گی۔ ہاں، سفارش قبول نہ ہونے کی وجہ بتا دی جائے گی، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن اپنے والد کے حق میں سفارش کریں گے، مگر وہ قبول نہیں ہو گی۔ اسی طرح حوض کوثر پر آنے والے بعض لوگوں کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفارش کریں گے مگر آپ کو بتایا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد کیا نیا کام کیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفارش سے دست بردار ہو جائیں گے۔