وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ ۖ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ
اور وہ کہیں گے سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنادیا کہ ہم جنت میں سے جہاں چاہیں جگہ بنا لیں۔ سو عمل کرنے والوں کا یہ اچھا اجر ہے۔
1۔ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ: اہلِ جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو اپنے رب کی حمد اور اس کا شکر ادا کریں گے اور اس بات کا اقرار و اعلان کریں گے کہ اس نے جو وعدہ کیا تھا : ﴿ اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّ عُيُوْنٍ﴾ [الذاریات : ۱۵ ] کہ بے شک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے (اور دوسری آیات مثلاً مریم : ۶۳) وہ وعدہ اس نے پورا فرما دیا۔ مزید دیکھیے سورۂ اعراف (۴۳، ۴۴) اور سورۂ فاطر (۳۳ تا ۳۵)۔ 2۔ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ: آدمی جس چیز کا وارث بنتا ہے اس کا پوری طرح مالک بن جاتا ہے، کوئی دوسرا اس پر دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ انھیں ان جگہوں کا بھی مالک بنایا جائے گا جو جہنم میں جانے والوں کی تھیں، اگر وہ نیک عمل کرتے اور یہ مالکانہ حقوق ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ 3۔ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَآءُ: یہاں ایک سوال ہے کہ جنتی اگر چاہے تو کیا دوسرے اہلِ جنت کے گھروں میں اپنی جگہ بنا سکے گا؟ اس کے جواب میں شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’ان کو حکم ہے کہ جہاں چاہیں رہیں، لیکن ہر کوئی وہی جگہ چاہے گا جو اس کے واسطے پہلے سے رکھی ہے۔‘‘ (موضح) اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہر جنتی کے پاس اتنی جگہ ہو گی کہ اسے کسی اور کی جگہ لینے کی ضرورت ہی نہیں ہو گی۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ جہنم سے نکل کر جنت میں جانے والے شخص کو اللہ تعالیٰ زمین کے برابر اور اس کے ساتھ اس سے دس گنا زیادہ جگہ عطا فرمائے گا۔ [ دیکھیے بخاري، الأذان، باب فضل السجود : ۸۰۶ ] ظاہر ہے اتنی جگہ ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی جگہ کی خواہش کوئی کمینہ شخص ہی کرے گا، جب کہ جنت میں کسی کمینگی یا کمینے شخص کی گنجائش ہی نہیں۔ 4۔ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ: یہ بات متقی کہیں گے یا فرشتے، یا یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔