وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ
اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے نگران ان سے کہیں گے کیا تمھارے پاس تم میں سے کچھ رسول نہیں آئے جو تم پر تمھارے رب کی آیات پڑھتے ہوں اور تمھیں تمھارے اس دن کی ملاقات سے ڈراتے ہوں؟ کہیں گے کیوں نہیں، اور لیکن عذاب کی بات کافروں پر ثابت ہوگئی۔
1۔ وَ سِيْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا : ’’سَاقَ يَسُوْقُ سَوْقًا‘‘ (ن) کسی کو اپنے آگے رکھ کر پیچھے سے ہانکنا، اس میں ہانکے جانے والے کی ذلت کا اظہار ہوتا ہے۔ آگے رہ کر کسی کو اپنے پیچھے چلانے کے لیے ’’قَادَ يَقُوْدُ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ’’ زُمَرًا ‘‘ ’’زُمْرَةٌ‘‘ کی جمع ہے، وہ گروہ جس کے پیچھے اور گروہ ہو۔ ’’زُمْرَةٌ مِنَ النَّاسِ‘‘ اس جماعت کو کہا جاتا ہے جس کے پیچھے اور جماعت آ رہی ہو۔ 2۔ پچھلی آیات میں قیامت کے دن حق کے ساتھ فیصلے کا ذکر ہے، ان آیات میں اس فیصلے پر عمل کا ذکر ہے۔ چنانچہ پہلے عذاب کے مستحق لوگوں کا ذکر فرمایا ہے، کیونکہ مقام ان لوگوں کو نصیحت اور ڈرانے کا ہے جو اتنی نصیحت اور اس قدر دلائل سن کر بھی کفر پر جمے رہے۔ 3۔ یعنی جب کافروں کا جرم ثابت ہونے کے بعد فیصلہ کر دیا جائے گا تو ٹولیاں بنا کر انھیں زبردستی ہانکتے ہوئے جہنم کی طرف لے جایا جائے گا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ يَوْمَ يُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا ﴾ [ الطور : ۱۳ ] ’’جس دن انھیں جہنم کی آگ کی طرف دھکیلا جائے گا، بری طرح دھکیلا جانا۔‘‘ مختلف گروہوں میں تقسیم یا تو کفر کی درجہ بندی کے لحاظ سے ہو گی کہ منافق درک اسفل میں ہوں گے اور کچھ وہ بھی ہوں گے جنھیں صرف آگ کا جوتا پہنایا جائے گا، یا زمانے کے لحاظ سے کہ پہلے لوگ پہلے اور بعد کے لوگ بعد میں داخل ہوں گے۔ (دیکھیے اعراف : ۳۸) ایک تقسیم مجرموں کی مختلف اقسام کے لحاظ سے بھی ہو گی، مثلاً چوروں کا گروہ، بدکاروں کا گروہ وغیرہ۔ دیکھیے سورۂ صافات (۲۲) اور سورۂ حٰمٓ السجدہ (۱۹)۔ 4۔ حَتّٰى اِذَا جَآءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا: یعنی ان کے آنے پر جہنم کے دروازے، جو پہلے بند تھے، کھولے جائیں گے، جس طرح قید خانے کے دروازے صرف مجرموں کی آمد پر کھولے جاتے ہیں اور پھر ان پر بند کر دیے جاتے ہیں، تاکہ وہ وہیں قید رہیں۔ 5۔ وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا: ’’خَزَنَةٌ‘‘ ’’خَازِنٌ‘‘ کی جمع ہے، جیسا کہ ’’طَلَبَةٌ‘‘ ’’طَالِبٌ‘‘ کی جمع ہے۔ دربان کو خازن کہا جاتا ہے، کیونکہ عموماً دربان وہیں ہوتے ہیں جہاں قیمتی چیزوں کا خزانہ ہو۔ جہنم کے دربانوں کی صفت کے لیے دیکھیے سورۂ تحریم (۶)۔ 6۔ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ ....: جہنم کے سخت دل، سخت لہجے اور قوت والے فرشتے ان سے یہ بات پوچھنے کے لیے نہیں بلکہ انھیں ملامت کرنے اور ڈانٹنے کے لیے کہیں گے، جسمانی عذاب کے ساتھ یہ عذاب مزید ہو گا۔ دیکھیے سورۂ انعام (۱۲۰) اور سورۂ ملک (۸ تا ۱۱)۔ 7۔ قَالُوْا بَلٰى وَ لٰكِنْ ....: یعنی ہاں آئے تھے اور انھوں نے ڈرایا بھی تھا، مگر ہم ہی ایسے اعمال کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ بات جو اس نے جہنم کو کافر جنوں اور انسانوں سے بھرنے کے متعلق فرمائی تھی (دیکھیے السجدہ : ۱۳) وہ ہمارے حق میں سچی ثابت ہوئی۔