سورة الزمر - آیت 62

اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ....: اہلِ توحید کے لیے وعدے اور مشرکین کے لیے وعید کے بعد دوبارہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور رد شرک کے دلائل کا ذکر شروع فرمایا۔ ابن عاشور نے فرمایا : ’’ اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ‘‘ اور اس کے بعد والے دو جملے ’’قُلْ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّيْ اَعْبُدُ اَيُّهَا الْجٰهِلُوْنَ ‘‘ کی تمہید ہیں اور اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دلیل ہیں۔ پہلا جملہ ’’ اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ‘‘ ہے، ظاہر ہے کہ جب ہر چیز پیدا اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے تو عبادت بھی اسی کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے معبود برحق ہونے کی دلیل کے طور پر اپنے ہر چیز کے خالق ہونے کو جا بجا بیان فرمایا ہے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۱۰۲)، رعد (۱۶)، فاطر (۳)، مومن (۶۲) اور سورۂ حج (۷۳)۔ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ : ’’وَكَلَ يَكِلُ‘‘ (ض) سپرد کرنا۔ ’’وکیل‘‘ جس کے سپرد کوئی چیز کی جائے کہ وہ اس کی حفاظت اور نگرانی کرے اور اس میں جو چاہے کرے۔ یہ اکیلے اللہ کی عبادت کی دوسری دلیل ہے، یعنی جس طرح ہر چیز کو پیدا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اسی طرح ہر چیز کی تدبیر و حفاظت کرنے والا بھی صرف اللہ تعالیٰ ہے، نہ کسی چیز کے پیدا کرنے میں کوئی اس کا شریک ہے اور نہ اس کی حفاظت و تدبیر میں۔ اس لیے اپنی ہر چیز اور ہر کام اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے کاحکم قرآن میں بار بار آیا ہے، فرمایا : ﴿ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ﴾ [ آل عمران : ۱۲۲ ] ’’اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ مومن بھروسا کریں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ ﴾ [ إبراہیم : ۱۲ ] ’’اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ بھروسا کرنے والے بھروسا کریں۔‘‘