سورة الزمر - آیت 60

وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُم مُّسْوَدَّةٌ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور قیامت کے دن تو دیکھے گا کہ وہ لوگ جنھوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ان کے چہرے سیاہ ہوں گے، کیا جہنم میں ان متکبروں کے لیے کوئی ٹھکانا نہیں ؟

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تَرَى الَّذِيْنَ كَذَبُوْا ....: اللہ پر جھوٹ باندھنے میں اگرچہ اس کے ساتھ شرک کرنا، اس کے لیے بیوی یا اولاد قرار دینا، اپنے آپ کو اس کا محبوب قرار دینا اور ان کے علاوہ دوسرے سب جھوٹ شامل ہیں، مگر آیات کے سیاق کے لحاظ سے اس کے اولین مصداق وہ دو جھوٹ ہیں جو اس سے پہلی آیات کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں، یعنی ایک ان کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ہدایت نہیں دی اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مہلت نہیں دی۔ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌ: قیامت کے دن کفار کے چہروں کے سیاہ ہونے کا ذکر قرآن مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۰۶، ۱۰۷)، یونس (۲۷) اور عبس (۴۰ تا ۴۲)۔ اَلَيْسَ فِيْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِيْنَ : ’’ مَثْوًى ‘‘ ثَوٰي يَثْوِيْ بِالْمَكَانِ وَ أَثْوٰي فِيْهِ‘‘ کسی جگہ میں رہنا، جیسا کہ سورۂ قصص میں ہے : ﴿ وَ مَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِيْ اَهْلِ مَدْيَنَ ﴾ [ القصص : ۴۵ ] ’’اور تو اہلِ مدین میں رہنے والا نہیں تھا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا جہنم میں جانے کا باعث ان کا تکبر ہو گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں تھے اور حق معلوم ہونے کے باوجود انھوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا اور ان کے چہرے سیاہ ہونے کا باعث بھی یہی تکبر ہو گا، کیونکہ متکبر کا چہرہ بگاڑنے ہی سے اس کا تکبر ٹوٹتا ہے۔ (ابن عاشور) عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِيْ قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ، قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَّكُوْنَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَ نَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ إِنَّ اللّٰهَ جَمِيْلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ)) [مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ۹۱ ] ’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر تکبر ہو گا۔‘‘ ایک آدمی نے کہا : ’’آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کا جوتا اچھا ہو (کیا یہ بھی تکبر ہے)؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ بہت جمال والا ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے، تکبر تو حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔‘‘ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يُحْشَرُ الْمُتَكَبِّرُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمْثَالَ الذَّرِّ فِيْ صُوَرِ الرِّجَالِ يَغْشَاهُمُ الذُّلُّ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَيُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِيْ جَهَنَّمَ يُسَمَّی بُوْلَسَ تَعْلُوْهُمْ نَارُ الْأَنْيَارِ يُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَةِ أَهْلِ النَّارِ طِيْنَةِ الْخَبَالِ )) [ ترمذي، صفۃ القیامۃ، باب ما جاء في شدۃ الوعید المتکبرین : ۲۴۹۲، قال الترمذي حسن صحیح وقال الألباني حسن ]’’متکبر لوگ قیامت کے دن چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی شکلوں میں اٹھائے جائیں گے، ہر جگہ سے ذلت انھیں ڈھانک رہی ہو گی، پھر وہ جہنم میں ایک قید خانے کی طرف ہانک کر لے جائے جائیں گے، جس کا نام ’’بولس‘‘ ہے۔ آگوں کی آگ (سب سے بڑی آگ) ان پر چڑھی ہو گی، انھیں آگ والوں کا نچوڑ ’’طینۃ الخبال‘‘ پلایا جائے گا۔‘‘ [ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ ]