بَلَىٰ قَدْ جَاءَتْكَ آيَاتِي فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنتَ مِنَ الْكَافِرِينَ
کیوں نہیں، بے شک تیرے پاس میری آیات آئیں تو تو نے انھیں جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو انکار کرنے والوں میں سے تھا۔
بَلٰى قَدْ جَآءَتْكَ اٰيٰتِيْ ....: لفظ ’’ بَلٰى ‘‘ (کیوں نہیں) اس شخص کی تردید کے لیے کہا جاتا ہے جو کسی ثابت شدہ چیز کی تردید کر رہا ہو۔ کفار کے قول ’’ لَوْ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰىنِيْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ ‘‘ (اگر اللہ مجھے ہدایت دیتا تو میں ضرور پرہیز گاروں میں سے ہوتا) کے ضمن میں یہ بات موجود ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ہدایت نہیں دی اور ’’ لَوْ اَنَّ لِيْ كَرَّةً ‘‘ کے ضمن میں یہ بات موجود ہے کہ اس نے انھیں وقت نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کیوں نہیں، میری آیات تیرے پاس آئیں (یعنی میں نے اپنی آیات کے ذریعے سے تجھے ہدایت دی اور وقت بھی دیا) مگر تو نے انھیں جھٹلا دیا اور تکبر کیا اور تو انکار کرنے والوں میں شامل رہا، جیسا کہ قوم ثمود کے متعلق فرمایا : ﴿ وَ اَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰى عَلَى الْهُدٰى﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۱۷ ] ’’اور جو ثمود تھے ہم نے انھیں سیدھا راستہ دکھایا، مگر انھوں نے ہدایت کے مقابلے میں اندھا رہنے کو پسند کیا۔‘‘