قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
کہہ دے اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ، بے شک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے۔ بے شک وہی تو بے حدبخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
1۔ قُلْ ....: سورت کی ابتدا سے یہاں تک مختلف طریقوں سے شرک کی تردید اور مشرکین کو وعید کا ایک لمبا سلسلہ چلا آ رہا ہے، جس کی پروا بظاہر کافر و مشرک لوگ نہیں کرتے، مگر اللہ تعالیٰ کے اس قدر پرزور کلام سے ان کے دلوں میں خوف کا پیدا ہونا ایک فطری چیز ہے، جو حد سے بڑھ جائے تو نتیجہ یاس اور ناامیدی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ہر جگہ ڈرانے کے ساتھ بشارت کا بیان بھی ضرور فرماتا ہے، تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس کے بندے ناامید ہو کر اس کی جناب میں آنے کی جرأت ہی نہ کریں، اور بشارت اور ترغیب کے ساتھ ترہیب اور ڈرانے کا بیان بھی فرماتا ہے، تاکہ وہ بے خوف نہ ہو جائیں، جیسا کہ جراح نشتر بھی لگاتا ہے اور مرہم بھی رکھتا ہے، پھر پرہیز کی تاکید کرتا ہے اور بد پرہیزی کے انجام سے ڈراتا ہے، فرمایا : ﴿نَبِّئْ عِبَادِيْ اَنِّيْ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (49) وَ اَنَّ عَذَابِيْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِيْمُ﴾ [ الحجر : ۴۹، ۵۰ ] ’’میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بے شک میں ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والاہوں۔ اور یہ بھی کہ بے شک میرا عذاب ہی دردناک عذاب ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿وَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰى ظُلْمِهِمْ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ [ الرعد : ۶ ] ’’اور بے شک تیرا رب یقیناً لوگوں کے لیے ان کے ظلم کے باوجود بڑی بخشش والا ہے اور بلاشبہ تیرا رب یقیناً بہت سخت سزا والا ہے۔‘‘ یہاں بھی وعید کے لمبے سلسلے کے بعد اپنے بندوں کو ’’ لَا تَقْنَطُوْا ‘‘ کے ساتھ اپنی رحمت کی امید دلائی اور بعد کی آیات میں انھیں جلد از جلد توبہ کی تلقین فرما کر وقت ہاتھ سے نکلنے سے ڈرایا ہے۔ 2۔ يٰعِبَادِيْ: بندے مومن ہوں یا کافر، سب اللہ کے بندے ہیں، اس لیے قرآن مجید میں ’’عِبَادِيْ‘‘ کا لفظ دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسا کہ مومن و کافر دونوں فریقوں کو اپنے بندے قرار دیا : ﴿اِنَّهٗ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْ عِبَادِيْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اٰمَنَّا﴾ [ المؤمنون : ۱۰۹ ] ’’بے شک حقیقت یہ ہے کہ میرے بندوں میں سے کچھ لوگ تھے جو کہتے تھے اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے۔‘‘ اور کفار کو اپنے بندے کہا : ﴿وَ يَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَ مَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَقُوْلُ ءَاَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِيْ هٰؤُلَآءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيْلَ﴾ [ الفرقان : ۱۷ ] ’’اور جس دن وہ انھیں اور جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے، اکٹھا کرے گا، پھر کہے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا، یا وہ خود راستے سے بھٹک گئے تھے؟‘‘ اور دیکھیے سورۂ زمر (۱۶) مگر اس کا اکثر استعمال اللہ کے مخلص اور مومن بندوں کے لیے ہوا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ﴾ [ الحجر : ۴۲ ] ’’بے شک میرے بندے، تیرا ان پر کوئی غلبہ نہیں۔‘‘ 3۔ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰى اَنْفُسِهِمْ : اس آیت میں ’’ يٰعِبَادِيْ‘‘ سے مراد قرآن مجید کے اکثر استعمال کے خلاف کفار و مشرکین ہیں، اس کی دلیل اس کے بعد کی آیات ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ﴾ [الزمر : ۵۴ ] ’’اور اس کے مطیع ہو جاؤ، اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آ جائے، پھر تمھاری مدد نہیں کی جائے گی۔‘‘ اور ان کا یہ کہنا : ﴿وَ اِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ﴾ [ الزمر : ۵۶ ] ’’اور بے شک میں تو مذاق کرنے والوں سے تھا۔‘‘ اور یہ آیت : ﴿بَلٰى قَدْ جَآءَتْكَ اٰيٰتِيْ فَكَذَّبْتَ بِهَا وَ اسْتَكْبَرْتَ وَ كُنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ﴾ [ الزمر : ۵۹ ] ’’کیوں نہیں،بے شک تیرے پاس میری آیات آئیں تو تو نے انھیں جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو انکار کرنے والوں میں سے تھا۔‘‘ صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ یہ آیات کچھ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئیں، چنانچہ انھوں نے فرمایا : (( أَنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ كَانُوْا قَدْ قَتَلُوْا وَ أَكْثَرُوْا، وَ زَنَوْا وَ أَكْثَرُوْا، فَأَتَوْا مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَقَالُوْا إِنَّ الَّذِيْ تَقُوْلُ وَ تَدْعُوْ إِلَيْهِ لَحَسَنٌ لَوْ تُخْبِرُنَا أَنَّ لِمَا عَمِلْنَا كَفَّارَةً، فَنَزَلَ : ﴿وَ الَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا يَزْنُوْنَ﴾ [الفرقان : ۶۸] وَ نَزَلَ : ﴿ قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ﴾ [الزمر : ۵۳] )) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿یا عبادی الذین أسرفوا....﴾ : ۴۸۱۰ ] ’’مشرکین میں سے کچھ لوگ جنھوں نے قتل کیے تھے اور بہت کیے تھے اور زنا کیا تھا اور بہت کیا تھا، پھر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے : ’’آپ جو بات کہتے ہیں اور جس کی دعوت دیتے ہیں یقیناً وہ بہت اچھی ہے، اگر آپ ہمیں بتائیں کہ ہم نے جو کچھ کیا اس کا کوئی کفارہ ہے؟‘‘ تو یہ آیت اتری : ﴿وَ الَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا يَزْنُوْنَ ﴾ [ الفرقان : ۶۸ ] ’’اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور اس جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے قتل نہیں کرتے مگر حق کے ساتھ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں۔‘‘ (یعنی اس کے بعد کی آیات میں ہے : ﴿ اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓىِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ﴾ [ الفرقان : ۷۰ ] ’’مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور عمل کیا نیک عمل، تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘) اور یہ آیت اتری : ﴿قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ﴾ ’’کہہ دے اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ۔‘‘ 4۔ ’’اسراف‘‘ کا معنی کسی بھی چیز میں حد سے گزرنا ہے، عموماً اس کا استعمال خرچ کرنے میں ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ الَّذِيْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَ لَمْ يَقْتُرُوْا﴾ [ الفرقان : ۶۷ ] ’’اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں۔‘‘ یہاں اس سے مراد کفر و شرک کرکے اپنی جانوں پر ظلم و زیادتی ہے۔ ’’ عَلٰى اَنْفُسِهِمْ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ تمھاری زیادتی کا نقصان تم ہی کو ہے، اللہ تعالیٰ کو یا کسی اور کو نہیں، اس لیے اس زیادتی کے مداوے کی فکر بھی تمھی کو ہونی چاہیے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلٰى اَنْفُسِكُمْ ﴾ [ یونس : ۲۳ ] ’’اے لوگو! تمھاری سرکشی تمھاری جانوں ہی پر ہے۔‘‘ 5۔ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ : ’’قَنِطَ يَقْنَطُ قُنُوْطًا‘‘ (ع، ض) ناامید ہونا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو کئی طرح سے گناہوں کی بخشش کی امید دلائی ہے۔ تفسیر رازی نے وہ دس وجہیں بیان کی ہیں : (1) ’’ يٰعِبَادِيْ ‘‘ (اے میرے بندو!) بندہ غلام کو کہتے ہیں۔ غلام بے چارہ مسکین، عاجز اور محتاج ہوتا ہے، اس کی مسکنت اور بے چارگی اسے مالک کے رحم و کرم کا حق دار بناتی ہے۔ (2) اللہ تعالیٰ نے ’’ يٰعِبَادِيْ‘‘ (اے میرے بندو!) کہہ کر ان کی نسبت اپنی طرف فرمائی اور جسے اللہ تعالیٰ اپنا کہہ دے اس کے ناامید ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ (3) ’’ اَسْرَفُوْا عَلٰى اَنْفُسِهِمْ ‘‘ كا مطلب يہ ہے كہ انهوں نے جو گناه کیے ان كا نقصان انھی كو ہے، الله تعالی كا اس سے کچھ نهيں بگڑا، اس ليے كوئی وجہ نہيں كہ وہ ان کی توبہ قبول نہ کرے۔ (4) ’’ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ‘‘ میں صریح الفاظ کے ساتھ ناامید ہونے سے منع فرمایا۔ (5) ’’ يٰعِبَادِيْ‘‘ (اے میرے بندو!) کے ساتھ خطاب کے بعد کلام کا تقاضا یہ تھا کہ کہا جاتا : ’’لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَتِيْ‘‘ (کہ میری رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ) مگر ’’مِنْ رَّحْمَتِيْ‘‘ کے بجائے فرمایا : ’’ مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ‘‘ (اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ) کیونکہ لفظ ’’اللّٰهِ ‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سب سے بڑا اور اس کی تمام صفات کا جامع نام ہے۔ تمام صفات کمال کی جامع ہستی سے ناامید ہونا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ (6) اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا : کہنا تو یہ تھا کہ ’’إِنَّهُ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ‘‘ ( بے شک وہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے) مگر دوبارہ اپنا نام لے کر فرمایا : ’’ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ‘‘ (کہ بے شک اللہ تعالیٰ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے) دوبارہ اپنا گرامی قدر نام ذکر کرنے اور ’’ اِنَّ ‘‘ کے ساتھ اس کی تاکید سے مغفرت کے وعدے میں مبالغے کا اظہار ہو رہا ہے۔ (7) جَمِيْعًا : ’’ الذُّنُوْبَ ‘‘ میں الف لام استغراق کے لیے ہے، اس لیے تمام گناہوں کی مغفرت کے وعدے کے لیے ’’ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ ‘‘ ہی کافی تھا، مگر ’’ جَمِيْعًا ‘‘ کے ساتھ مزید تاکید فرما دی کہ اللہ تعالیٰ توبہ کے ساتھ تمام گناہ، حتیٰ کہ شرک جیسے اکبر الکبائر کو بھی بخش دیتا ہے، جیسا کہ اگلی آیت میں ’’اَنِيْبُوْا ‘‘ اور ’’ اَسْلِمُوْا ‘‘ وغیرہ الفاظ کے ساتھ وضاحت آ رہی ہے۔ (8) اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ:’’ الْغَفُوْرُ ‘‘ ’’غَفَرَ يَغْفِرُ‘‘ کا اصل معنی پردہ ڈالنا ہے اور ’’ الْغَفُوْرُ ‘‘ اس سے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ بندوں کے گناہوں پر بہت زیادہ پردہ ڈالنے والا ہے۔ یہ عذاب کا باعث بننے والی چیزوں کو دور کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ (9) ’’ الرَّحِيْمُ ‘‘ ’’رُحْمٌ‘‘ سے مبالغے کا صیغہ ہے کہ وہ بے حد رحم کرنے والا ہے۔ یہ مغفرت کے بعد مزید رحمت کے نتیجے میں عطا ہونے والی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے۔ ان دونوں کا فرق شعراوی نے ایک مقام پر ایک مثال کے ساتھ واضح کرنے کی کوشش کی ہے، اگرچہ یہ مکمل نہیں ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی چور کو چوری کرتے ہوئے پکڑ لیتا ہے، اب وہ اسے سزا دے یا دلوا سکتا ہے، مگر وہ اس کی منتوں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کے وعدے کی وجہ سے اس کی چوری پر پردہ ڈال دیتا ہے اور کسی کو اس کی اطلاع نہیں دیتا، یہ مغفرت ہے۔ پھر وہ اس کی حالت زار پر رحم کرتے ہوئے اسے کچھ رقم دے کر کاروبار میں کھڑا کر دیتا ہے، یہ اس پر رحم ہے۔ (10) ’’ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ‘‘ میں ’’ هُوَ ‘‘ ضمیر فصل اور خبر ’’ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ‘‘ پر الف لام کی وجہ سے کلام میں تاکید اور حصر پیدا ہو گیا۔ یعنی اس کے سوا کوئی نہ غفور ہے نہ رحیم، اس سے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت کے کمال کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ تمام وجوہ اللہ تعالیٰ کی کمال مغفرت و رحمت پر اور بندوں کے اس سے کسی حال میں بھی ناامید نہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل و کرم سے ان میں سے وافر حصہ عطا فرمائے۔ (آمین) 6۔ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ....: ’’ وَ اَنِيْبُوْا اِلٰى رَبِّكُمْ ‘‘ اور بعد کی آیات سے ظاہر ہے کہ یہ وعدہ صرف ان لوگوں سے ہے جو توبہ کریں۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی یہی تفسیر اختیار فرمائی ہے، کیونکہ اگر وہ کافر و مشرک ہے تو کفر و شرک سے توبہ کرنے اور اسلام قبول کرنے کے بغیر اس کی بخشش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر وہ مسلمان ہے تو اس کے تمام گناہوں کی معافی کا وعدہ توبہ یا اس کے قائم مقام اعمال کے ساتھ ہے، ورنہ اس کی بخشش اللہ تعالیٰ کی مشیّت پر موقوف ہے، وہ جسے چاہے گا بخش دے گا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ [ النساء : ۱۱۶ ] ’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا۔‘‘ اگر یہ کہا جائے کہ ہر مسلمان کے تمام گناہ توبہ کے بغیر معاف ہو جائیں گے تو شریعت کے احکام کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ البتہ اس بات میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس مسلمان کے گناہ چاہے گا سزا دیے بغیر معاف کر دے گا اور جسے چاہے گا سزا دے گا، مگر آخر کار ہر موحّد مسلمان کو جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ اس وقت کفار خواہش کریں گے کہ کاش! وہ بھی مسلمان ہوتے، خواہ کسی درجے کے ہوتے، کیونکہ کفار پر اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتیں حرام کر دی ہیں۔ دیکھیے سورۂ حجر کی آیت (۲) کی تفسیر۔ اگر بخشش کا یہ معنی کیا جائے کہ آخر کار تمام مسلمان جنت میں جائیں گے تو ’’ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ‘‘ (بے شک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے) سے صرف کافر مستثنیٰ ہوں گے کہ ان کے گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوں گے۔ 7۔ اس آیت اور بعد کی آیات سے اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ توبہ کرنے والوں کو کس قدر معاف فرمانے والا ہے۔ سورۂ فرقان (۶۹، ۷۰) میں شرک، قتل ناحق اور زنا کرنے والوں کے ساتھ توبہ، ایمان اور عمل صالح کے بعد ان کی گزشتہ برائیوں کو نیکیوں میں بدل دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس لیے کسی بندے کو اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے، خواہ اس کے گناہوں سے زمین و آسمان بھرے ہوئے ہوں۔ صرف اللہ کی طرف پلٹنے اور اس کے سامنے اعتراف کے بعد توبہ کی ضرورت ہے، وہ سب گناہ معاف فرما دے گا، کیونکہ اسے اپنے بندوں کی توبہ بہت ہی محبوب ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے : ﴿ اَلَمْ يَعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ ﴾ [ التوبۃ : ۱۰۴ ] ’’کیا انھوں نے نہیں جانا کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ مَنْ يَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ﴾ [ النساء : ۱۱۰ ] ’’اور جو بھی کوئی برا کام کرے، یا اپنی جان پر ظلم کرے، پھر اللہ سے بخشش مانگے وہ اللہ کوبے حد بخشنے والا، نہایت مہربان پائے گا۔‘‘ منافقین کے متعلق فرمایا : ﴿ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَ لَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيْرًا (145) اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا﴾ [ النساء : ۱۴۵، ۱۴۶ ] ’’بے شک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور تو ہرگز ان کا کوئی مدد گار نہ پائے گا۔ مگر وہ لوگ جنھوں نے توبہ کی۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَ اِنْ لَّمْ يَنْتَهُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ﴾ [ المائدۃ : ۷۳ ] ’’بلاشبہ یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا بے شک اللہ تین میں سے تیسرا ہے، حالانکہ کوئی بھی معبود نہیں مگر ایک معبود، اور اگر وہ اس سے باز نہ آئے جو وہ کہتے ہیں تو یقیناً ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا انھیں ضرور درد ناک عذاب پہنچے گا۔‘‘ پھر انھی کے متعلق فرمایا : ﴿ اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَ يَسْتَغْفِرُوْنَهٗ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ﴾ [ المائدۃ : ۷۴ ] ’’توکیا وہ اللہ کی طرف توبہ نہیں کرتے اور اس سے بخشش نہیں مانگتے، اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ ابن کثیر رحمہ اللہ نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ’’ قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ‘‘ کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اپنی مغفرت کی دعوت دی جنھوں نے کہا مسیح خود اللہ ہے اور جنھوں نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے اور جنھوں نے کہا عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور جنھوں نے کہا اللہ فقیر ہے اور جنھوں نے کہا اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے اور جنھوں نے کہا اللہ تین میں تیسرا ہے، ان سب سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَ يَسْتَغْفِرُوْنَهٗ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ﴾ [ المائدۃ : ۷۴ ] ’’توکیا وہ اللہ کی طرف توبہ نہیں کرتے اور اس سے بخشش نہیں مانگتے، اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ پھر اسے بھی توبہ کی دعوت دی جس نے ان سے بھی بڑی بات کہی : ﴿ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى ﴾ [ النازعات : ۲۴ ] ’’میں تمھارا سب سے اونچا رب ہوں۔‘‘ اور جس نے کہا : ﴿مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ ﴾ [ القصص : ۳۸ ] ’’میں نے اپنے سوا تمھارے لیے کوئی معبود نہیں جانا۔‘‘ چنانچہ فرمایا : ﴿ وَ اِنِّيْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى ﴾ [ طٰہٰ : ۸۲ ] ’’اور بے شک میں یقیناً اس کو بہت بخشنے والا ہوں جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھے راستے پر چلے۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : ’’جو شخص اس کے بعد بھی اللہ کے بندوں کو توبہ سے مایوس کرے اس نے اللہ کی کتاب کا انکار کیا، لیکن بندہ توبہ نہیں کر سکتا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس پر مہربانی فرمائے۔‘‘ مسلمانوں کو آگ سے بھری ہوئی خندقوں میں ڈالنے والوں (اصحاب الاخدود) کے متعلق فرمایا : ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَ لَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ ﴾ [ البروج : ۱۰ ] ’’ یقیناً وہ لوگ جنھوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو آزمائش میں ڈالا، پھر انھوں نے توبہ نہیں کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جلنے کا عذاب ہے۔‘‘ حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’اس جود و کرم کو دیکھو! ان لوگوں نے اس کے دوستوں کو قتل کیا اور وہ انھیں توبہ اور مغفرت کی دعوت دے رہا ہے۔‘‘ (ابن کثیر) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کی بہت سی آیات ہیں۔ احادیثِ صحیحہ میں ننانوے آدمیوں کے بعد سوویں آدمی کے قاتل کی توبہ کا ذکر معروف ہے، جسے نیک لوگوں کی بستی کی طرف جاتے ہوئے راستے میں موت آ گئی۔ [ دیکھیے مسلم، التوبۃ، باب قبول توبۃ القاتل، إن کثر قتلہ : ۲۷۶۶ ] اسی طرح اللہ تعالیٰ کا بندے کی توبہ پر اس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہونے کا ذکر ہے جو اپنی گم شدہ اونٹنی ملنے پر خوشی کی شدت میں اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے بے اختیار کہہ اٹھتا ہے : ’’یا اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب‘‘ اور خوشی کی شدت میں خطا کر جاتا ہے۔ [ دیکھیے مسلم، التوبۃ، باب في الحض علی التوبۃ والفرح بھا : ۲۷۴۷ ] اسی طرح اس بندے کا ذکر ہے جس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ وہ اس کے فوت ہونے کے بعد اس کی لاش کو جلا کر اس کی راکھ کچھ پانی میں بہا دیں اور کچھ ہوا میں اڑا دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے زندہ کرکے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ تو اس نے کہا : ’’یا اللہ! تیرے ڈر سے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ [ دیکھیے مسلم، التوبۃ، باب في سعۃ رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ....: ۲۷۵۶ ] پھر اللہ تعالیٰ کا یہ بھی کرم ہے کہ بندہ جتنی بار بھی گناہ کرے، پھر اس کے بعد جتنی بار توبہ کرے وہ معاف فرما دیتا ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَذْنَبَ عَبْدٌ ذَنْبًا فَقَالَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ فَقَالَ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰی أَذْنَبَ عَبْدِيْ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَ يَأْخُذُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ أَيْ رَبِّ! اغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ فَقَالَ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰی عَبْدِيْ أَذْنَبَ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَ يَأْخُذُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ أَيْ رَبِّ! اغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ فَقَالَ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰی أَذْنَبَ عَبْدِيْ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَ يَأْخُذُ بِالذَّنْبِ اعْمَلْ مَا شِئْتَ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ )) [ مسلم، التوبۃ، باب قبول التوبۃ من الذنوب....: ۲۷۵۸ ] ’’ایک بندے نے گناہ کیا، پھر اس نے کہا : ’’اے میرے رب! مجھے میرا گناہ بخش دے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’میرے بندے نے ایک گناہ کیا، پھر جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر پکڑتا ہے۔‘‘ پھر اس نے دوبارہ گناہ کیا اور کہا : ’’اے میرے رب!مجھے میرا گناہ بخش دے۔‘‘ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ’’میرے بندے نے ایک گناہ کیا پھر جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر پکڑتا ہے۔‘‘ پھر ایک بار اور اس نے گناہ کیا اور کہا : ’’اے میرے رب! مجھے میرا گناہ بخش دے۔‘‘ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ’’میرے بندے نے گناہ کیا پھر جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر پکڑتا ہے۔ (میرے بندے!) تو جو چاہے کر، میں نے تجھے بخش دیا۔‘‘