فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
پھر جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو کہتا ہے یہ مجھے ایک علم کی بنیاد ہی پر دی گئی ہے۔ بلکہ وہ ایک آزمائش ہے اور لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔
1۔ فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ ....: ’’خَوَّلَ يُخَوِّلُ‘‘ کسی معاوضے کے بغیر کوئی عطیہ دینا۔ اس آیت میں مشرک انسان کی ایک اور قبیح صفت بیان کی گئی ہے کہ جب اسے کوئی بڑی تکلیف پہنچتی ہے، مثلاً فقر یا بیماری یا سیلاب یا طوفان وغیرہ، تو اپنے جھوٹے معبودوں کو چھوڑ کر ایک اللہ کو پکارتا ہے، (’’ ثُمَّ ‘‘ تراخی کے لیے ہے، جس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ نعمت کچھ مدت کے بعد ملتی ہے) پھر ایک مدت تک اس تکلیف میں رہنے اور بار بار لیٹے، بیٹھے اور کھڑے ہر حال میں اس سے فریاد کرنے اور اسے پکارنے کے بعد جب وہ اسے اس تکلیف سے نجات کی نعمت، یا کوئی بھی نعمت محض اپنے خاص فضل سے عطا کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو سرے سے بھول جاتا ہے اور کہتا ہے، یہ تو مجھے صرف ایک علم کی بنا پر دی گئی ہے، مثلاً فقر کے بعد مال ملتا ہے تو کہتا ہے، یہ میرے دولت کمانے کے ہنر کی وجہ سے ملا ہے، اگر بیماری کے بعد شفا مل جائے تو کہتا ہے، یہ میری یا فلاں صاحب کی طب میں مہارت کی وجہ سے ملی ہے۔ 2۔ اِنَّمَا اُوْتِيْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ : ’’مجھے یہ (نعمت) ایک علم کی بنیاد پر دی گئی ہے‘‘ یعنی اپنے رب کے سارے احسان بھلا کر اس قدر بیگانہ ہو جاتا ہے کہ نعمت دینے والے کا نام تک لینا گوارا نہیں کرتا، بلکہ کہتا ہے ’’مجھے یہ نعمت دی گئی ہے‘‘ یہ احسان فراموشی اور نمک حرامی کی انتہا ہے، کوئی اس سے پوچھے، کیا تیرے باپ نے تجھے یہ نعمت دی ہے؟ 3۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس سے پہلے اسی سورت کی آیت (۸) میں یہی الفاظ ’’واؤ‘‘ کے ساتھ آئے ہیں : ﴿ فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ ﴾ یہاں ’’فاء‘‘ کے ساتھ ’’ فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ ‘‘ لانے میں کیا حکمت ہے؟ جواب اس کا یہ ہے (واللہ اعلم) کہ ’’فاء‘‘ کے ذریعے سے اس جملے کا تعلق ’’ وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ ‘‘ کے ساتھ ہے، درمیان کے جملے معترضہ ہیں، یعنی ان جاہلوں کا تضاد دیکھو کہ کبھی ان کا یہ حال ہوتا ہے کہ اللہ اکیلے کے ذکر پر ان کے دل نفرت سے بھر جاتے اور سخت تنگ پڑ جاتے ہیں اور اس کے غیر کے ذکر پر ان کے دل کی کلی کھل اٹھتی ہے اور وہ بہت خوش ہو جاتے ہیں (اور دوسرے وقت ان کا یہ حال ہوتا ہے کہ) پھر جب انھیں کوئی بڑی تکلیف پہنچتی ہے ’’ فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ‘‘ تو اسی اللہ کو پکارتے ہیں جس کے ذکر پر ان کے دل تنگ پڑ جاتے تھے اور ان غیروں کا نام بھی نہیں لیتے جن کے ذکر پر وہ بہت خوش ہو جاتے تھے۔ 4۔ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ: یعنی وہ نعمت اسے اس کے علم کی بنا پر نہیں بلکہ آزمائش کے لیے دی گئی ہے کہ وہ عطا کرنے والے کا شکر ادا کرتا ہے یا اس کی نعمت کی ناشکری اور کفر و شرک پر اصرار کرتا ہے۔ 5۔ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ : یعنی اکثر لوگ نہیں جانتے کہ مال و جاہ، صحت و قوت بلکہ ہر ایک نعمت محض اللہ کے فضل سے عطا ہوتی ہے، اس میں کسی کی عقل یا علم کا کوئی دخل نہیں، کیونکہ بہت سے علم و عقل والے کنگال، بیمار اور کمزور ہوتے ہیں، انھیں کہیں پناہ نہیں ملتی اور بہت سے علم و عقل سے عاری مال و دولت، صحت و قوت اور بے شمار نعمتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ ’’اکثر لوگ‘‘ اس لیے فرمایا کہ تھوڑے لوگ اس حقیقت کو جانتے ہیں، پھر ان میں سے بعض تو ایمان لے آتے ہیں اور ہر حال میں اپنے رب پر صابر و شاکر رہتے ہیں اور بعض جاننے کے باوجود ضد اور عناد سے ناشکری اور کفر اختیار کرتے ہیں۔ یہ بھی ’’ لَا يَعْلَمُوْنَ ‘‘ ہی میں داخل ہیں، کیونکہ جو علم عمل سے آراستہ نہ ہو وہ لاعلمی ہی ہے۔ ’’ لَا يَعْلَمُوْنَ ‘‘ میں یہ بھی داخل ہے کہ اکثر لوگ نہیں جانتے کہ نعمتوں کی یہ فراوانی اگر شکر اور ایمان کا باعث نہ بنے تو اللہ کے راضی ہونے یا ان کے نعمتوں کے حق دار ہونے کی دلیل نہیں، بلکہ استدراج ہے اور ان کے ذریعے سے ان پر حجت تمام ہو رہی ہے۔