سورة الزمر - آیت 45

وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب اس اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل تنگ پڑجاتے ہیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور جب ان کا ذکر ہوتا ہے جو اس کے سوا ہیں تو اچانک وہ بہت خوش ہوجاتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ ....: ’’اِشْمَأَزَّ‘‘ نفرت سے بھر گیا، تنگ پڑ گیا۔ یہ بات دنیا بھر کے مشرکوں میں مشترک ہے، خواہ وہ نام کے مسلمان کیوں نہ ہوں کہ کوئی شخص اکیلے اللہ کا اور اس کی کبریائی اور توحید کا ذکر کرے تو ان کے دل نفرت سے بھر جاتے ہیں اور تنگ پڑ جاتے ہیں اور ان کے چہروں پر ناگواری اور نفرت کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ شخص اولیاء اور بزرگوں کو نہیں مانتا، اسی لیے صرف اللہ ہی کی بات کرتا چلا جاتا ہے، نہ کسی ولی کی قوت و تصرف کا ذکر کرتا ہے جو (ان کے خیال میں) اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا تیر راستے سے واپس ہٹا لاتے ہیں اور نہ کسی دستگیر یا گنج بخش یا مشکل کُشا کی دستگیری یا مشکل کُشائی کا بیان کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا : ﴿ وَ اِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰى اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا﴾ [ بني إسرائیل : ۴۶ ] ’’اور جب تو قرآن میں اپنے رب کا، اکیلے اسی کا ذکر کرتا ہے تو وہ بدکتے ہوئے اپنی پیٹھوں پر پھر جاتے ہیں۔‘‘ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ : یعنی اکیلے اللہ کے ذکر پر ان کے دلوں کے تنگ پڑنے کی وجہ آخرت پر یقین نہ ہونا ہے، اگر آخرت پر یقین ہوتا اور وہ ایمان رکھتے کہ ہمیں اس دن اس اکیلے کے سامنے پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے تو وہ ایسا کبھی نہ کرتے۔ وَ اِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ....: ’’ يَسْتَبْشِرُوْنَ‘‘ باب استفعال میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی میں بھی زیادتی ہوتی ہے، یعنی بہت خوش ہو جاتے ہیں، جیسا کہ ’’ اشْمَاَزَّتْ ‘‘ میں حروف کی زیادتی ان کی نفرت اور دل کی تنگی کے زیادہ ہونے کا اظہار کرتی ہے۔ ’’اِشْمِئْزَازٌ‘‘ اور ’’اِسْتِبْشَارٌ‘‘ کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اکیلے اللہ کے ذکر پر دل کی تنگی میں اور من دون اللہ کے ذکر پر اس کی خوشی میں وہ انتہا کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ ’’ اِذَا ‘‘ مفاجات کے لیے ہے ’’اچانک‘‘ یعنی جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ یا اس کے بغیر اس کے سوا اور ہستیوں کا ذکر کیا جائے اور ان کی جھوٹی سچی کرامات بیان ہونا شروع ہوں تو اچانک ان کے چہروں پر خوشی پھیل جاتی ہے۔ مفسر آلوسی نے روح المعانی میں اپنا تجربہ لکھا ہے کہ ایک دن میں نے ایک آدمی سے کہا جو اپنی کسی مشکل میں کسی فوت شدہ سے استغاثہ کر رہا تھا اور اسے پکار کر کہہ رہا تھا کہ اے فلاں! میری مدد کر۔ میں نے اس سے کہا، تم ’’یا اللہ‘‘ کہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ﴾ [ البقرۃ : ۱۸۶ ] ’’اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔‘‘ تو وہ شخص سخت غصے میں آ گیا۔ بعد میں لوگوں نے مجھے بتایا کہ وہ کہتا تھا، یہ شخص اولیاء کا منکر ہے۔ کچھ لوگوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اس نے کہا، اللہ تعالیٰ کی بہ نسبت ولی جلدی سن لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں گمراہی سے محفوظ رکھے۔