فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكَافِرِينَ
پھر اس سے زیادہ کون ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ بولا اور سچ کو جھٹلایا جب وہ اس کے پاس آیا، کیا ان کافروں کے لیے جہنم میں کوئی ٹھکانا نہیں؟
1۔ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللّٰهِ : ظلم کا معنی اندھیرا ہے، کسی چیز کو اس کی جگہ کے علاوہ کہیں اور رکھنا بھی اور کسی کا حق دوسرے کو دے دینا بھی ظلم ہے، کیونکہ آدمی اندھیرے میں کسی چیز کو اس کی اصل جگہ نہیں رکھ سکتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ سے مراد شرک یعنی اس کے ساتھ کسی اور کی عبادت کرنا ہے، جس کی کئی صورتیں اس سورت کے شروع سے یہاں تک بیان ہوئی ہیں۔ مثلاً اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کچھ اولیاء کی عبادت کرنا، فرشتوں کو یا مسیح و عزیر علیھما السلام کو یا کسی اور کو اللہ کی اولاد قرار دینا، مصیبت اور تکلیف کے وقت صرف اللہ تعالیٰ کو پکارنا اور اس کی طرف سے کوئی نعمت عطا ہونے پر اسے بھول کر اس کے شریک بنا کر لوگوں کو گمراہ کرنا اور طاغوت کی عبادت کرنا وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے سب کا رد فرما کر اس آیت میں خلاصہ بیان فرمایا، اس لیے آیت کی ابتدا ’’فاء‘‘ کے ساتھ فرمائی کہ پھر اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹ بولا اور اس کا حق دوسروں کو دے دیا؟ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی کچھ تفصیل ان آیات کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں، سورۂ انعام (۲۱)، اعراف (۳۷)، ہود (۱۸) اور عنکبوت (۶۸)۔ 3۔ وَ كَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَآءَهٗ: صدق کا معنی وہ بات ہے جو واقعہ کے مطابق ہو، سچی ہو، یہاں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید، آخرت اور رسالت ہے۔ یعنی اگر کسی شخص کے پاس سچی بات نہ پہنچے تو اس کا عذر ہو سکتا ہے، مگر جس شخص کے پاس حق اور صدق آ جائے اور وہ اس پر غور و فکر کی زحمت کیے بغیر اسے سنتے ہی جھٹلا دے، یا اسے سمجھنے کے باوجود عناد کی وجہ سے اس کے آنے کے ساتھ ہی اسے جھٹلا دے، یعنی جو شخص اللہ پر جھوٹ بولے اور سچی بات سنتے ہی اسے جھٹلا دے اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔ 4۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر ایک اور طریقے سے کی ہے : ’’یعنی اگر نبی نے جھوٹ خدا کا نام لیا تو اس سے برا کون؟ اور اگر وہ سچا تھا اور تم نے جھٹلایا تو تم سے برا کون؟‘‘ (موضح) اس تفسیر کے مطابق ’’ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللّٰهِ ‘‘ کا مصداق اور ہے اور ’’ وَ كَذَّبَ بِالصِّدْقِ ‘‘ کا مصداق اور، جب کہ پہلی تفسیر کے مطابق دونوں صفات ایک ہی شخص کی ہیں۔ 5۔ اَلَيْسَ فِيْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِيْنَ: ’’ مَثْوًى ‘‘ ’’ثَوٰي يَثْوِيْ ثَوَاءً وَثُوِيًّا‘‘ بروزن ’’مَضٰي يَمْضِيْ مَضَاءً وَ مُضِيًّا‘‘ سے اسم ظرف ہے ، رہنا، ٹھہرنا۔ تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ عنکبوت (۶۸) یہ کہنے کے بجائے کہ ’’کیا ان کے لیے جہنم میں کوئی ٹھکانا نہیں؟‘‘ یہ فرمایا کہ ’’کیا ان کافروں کے لیے جہنم میں کوئی ٹھکانا نہیں؟‘‘ مقصود اس بات کا اظہار ہے کہ ان کا ٹھکانا جہنم ہونے کی وجہ ان کا کفر یعنی حق بات کو چھپانا اور اس کا انکار کرنا ہے۔ 6۔ ’’اَلْكَافِرِيْنَ‘‘ جمع لانے سے ظاہر ہے کہ ’’ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللّٰهِ ‘‘ (جس نے اللہ پر جھوٹ بولا) میں ’’مَنْ‘‘ عموم کے لیے ہے، یعنی اس سے مراد ایک شخص نہیں بلکہ ایسے تمام لوگ ہیں جو اللہ پر جھوٹ باندھتے اور سچی بات کو جھٹلاتے ہیں۔