أَفَمَن يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَقِيلَ لِلظَّالِمِينَ ذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ
تو کیا وہ شخص جو قیامت کے دن اپنے چہرے کے ساتھ بد ترین عذاب سے بچے گا (وہ جنتی جیسا ہوسکتا ہے؟) اور ظالموں سے کہا جائےگا چکھو جو تم کمایا کرتے تھے۔
1۔ ’’ اَفَمَنْ يَّتَّقِيْ بِوَجْهِهٖ ‘‘ کی خبر محذوف ہے (جیسا کہ اس سے پہلے آیت : ۱۹ میں گزر چکا ہے) : ’’أَيْ كَمَنْ هُوَ آمِنٌ مِنَ الْعَذَابِ، أَوْ كَمَنْ هُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ‘‘ یعنی تو کیا وہ شخص جو قیامت کے دن اپنے چہرے کے ساتھ بدترین عذاب سے بچے گا، وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو عذاب سے بے خوف ہو گا، یا جو اہلِ جنت سے ہو گا؟ جیسا کہ فرمایا : ﴿ اَفَمَنْ يُّلْقٰى فِي النَّارِ خَيْرٌ اَمْ مَّنْ يَّاْتِيْ اٰمِنًا يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۴۰ ] ’’تو کیا وہ شخص جو آگ میں پھینکا جائے بہتر ہے، یاجو امن کی حالت میں قیامت کے دن آئے؟‘‘ مزید دیکھیے سورۂ قمر (۴۸) اور سورۂ ملک (۲۲)۔ 2۔ دنیا میں آدمی کو آگ یا کسی بھی تکلیف دہ چیز کا سامنا ہو تو وہ اپنے چہرے کو اس سے بچانے کے لیے ہاتھوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ قیامت کے دن چونکہ جہنمیوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں گے، اس لیے وہ عذاب سے بچنے کے لیے چار و ناچار چہروں ہی کو ڈھال بنائیں گے، یعنی بد ترین عذاب کے تھپیڑے سیدھے ان کے منہ پر پڑیں گے۔ 3۔ وَ قِيْلَ لِلظّٰلِمِيْنَ ذُوْقُوْا ....: یعنی وہ اپنے چہرے کے ساتھ عذاب سے بچیں گے، مگر اس سے انھیں کچھ بچاؤ حاصل نہ ہو گا، بلکہ آگ انھیں ہر جانب سے ڈھانپ لے گی۔ آگے یہ کہنے کے بجائے کہ ’’ان سے کہا جائے گا‘‘ فرمایا ’’ان ظالموں سے کہا جائے گا‘‘ مقصد یہ بات واضح کرنا ہے کہ ان کے عذاب کا باعث ان کا ظلم ہو گا اور ان سے کہا جائے گا کہ اپنی کمائی کا وبال چکھو۔