وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِيلِهِ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ
اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو پکارتا ہے، اس حال میں کہ اس کی طرف رجوع کرنے والا ہوتا ہے۔ پھر جب وہ اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا کرتا ہے تو وہ اس (مصیبت) کو بھول جاتا ہے، جس کی جانب وہ اس سے پہلے پکارا کرتا تھا اور اللہ کے لیے کئی شریک بنا لیتا ہے، تاکہ اس کے راستے سے گمراہ کردے۔ کہہ دے اپنی ناشکری سے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لے، یقیناً تو آگ والوں میں سے ہے۔
1۔ وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ: اپنی وحدانیت اور کمال قدرت کے بہت سے دلائل اور انھیں دیکھنے کے بعد شکر یا کفر کرنے والوں کا انجام بیان فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے خوش حالی اور بدحالی میں انسان کی طبیعت کا ذکر فرمایا، ساتھ ہی بتا دیا کہ دونوں حالتوں میں مومن و کافر اور عالم و جاہل برابر نہیں ہیں۔ آیت میں ’’ الْاِنْسَانَ ‘‘ سے مراد کافر و مشرک ہے، کیونکہ اس کے متعلق آگے آ رہا ہے : ﴿ وَ جَعَلَ لِلّٰهِ اَنْدَادًا﴾ کہ نعمت ملنے پر وہ اللہ کے لیے کئی شریک بنا لیتا ہے۔ جن مشرک انسانوں کا یہاں ذکر ہے وہ کم از کم مصیبت میں تو ایک اللہ کو پکارتے تھے، مگر ہمارے زمانے کے کئی اسلام کے دعوے دار مصیبت میں اور سمندر میں طوفان کے وقت بھی غیر اللہ کو پکارتے رہتے ہیں۔ [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ] 2۔ دَعَا رَبَّهٗ مُنِيْبًا اِلَيْهِ : یعنی تکلیف اور مصیبت کے وقت وہ پورے خلوص کے ساتھ اپنے رب کو پکارتا ہے، اس وقت اسے کوئی دوسرا معبود یاد نہیں رہتا، وہ سب سے مایوس ہو کر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہ دلیل ہے کہ اس کے دل کی گہرائیوں میں یہ بات موجود ہے کہ وہ تکلیف اس کا کوئی حاجت روا یا مشکل کُشا یا داتا یا دستگیر دور نہیں کر سکتا، اسے دور کرنے والا صرف ایک اللہ ہے۔ ’’ مُنِيْبًا ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے غیروں کو پکارتا تھا، مصیبت کے وقت سب کو چھوڑ کر واپس اللہ کی طرف آجاتا ہے۔ 3۔ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَهٗ نِعْمَةً مِّنْهُ : نعمت عطا فرمانے سے مراد اس تکلیف کا دور کرنا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی نعمت مراد ہو سکتی ہے۔ 4۔ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُوْا اِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ: ’’ اِلَيْهِ ‘‘ میں ضمیر ’’هٗ‘‘ سے مراد ’’ ضُرٌّ ‘‘ ہے۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے : ﴿وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِهٖ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآىِٕمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ يَدْعُنَا اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗ ﴾ [ یونس : ۱۲ ] ’’اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پہلو پر یا بیٹھا ہوا یا کھڑا ہوا ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اس سے اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو چل دیتا ہے جیسے اس نے ہمیں کسی تکلیف کی طرف، جو اسے پہنچی ہو، پکارا ہی نہیں۔‘‘ 5۔ وَ جَعَلَ لِلّٰهِ اَنْدَادًا لِّيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ: یعنی اللہ کی راہ (اسلام و توحید) سے وہ نہ صرف خود گمراہ ہوتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور لوگوں سے کہتا پھرتا ہے کہ ہمیں تو فلاں آستانے سے شفا نصیب ہوئی تھی، فلاں بزرگ کی نظر کرم سے ہم مصیبت سے نکل آئے اور فلاں حضرت جی کی توجہ سے ہماری کشتی کنارے آ لگی۔ اس طرح یہ جاہل جھوٹی کہانیاں گھڑ کر بے بس اور بے اختیار مخلوق کو اللہ کا شریک بتا کر لوگوں کو گمراہ کرتا رہتا ہے۔ 6۔ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيْلًا ....: فرمایا، اس مشرک انسان کو کہہ دے کہ اپنے کفر و شرک کے ذریعے سے لوگوں کو گمراہ کر کے حاصل ہونے والی لذتوں سے معمولی فائدہ اٹھا لے، مگر یہ بالکل تھوڑی مدت کے لیے ہے، بہت جلد یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا اور تو آگ والوں میں شامل ہو کر ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنے والا ہے۔ آیت کی مزید تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ یونس (۱۲)۔