إِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنكُمْ ۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ ۗ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
اگر تم ناشکری کرو تو یقیناً اللہ تم سے بہت بے پروا ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمھارے لیے پسندکرے گا اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی، پھر تمھارا لوٹنا تمھارے رب ہی کی طرف ہے تو وہ تمھیں بتلائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔ یقیناً وہ سینوں والی بات کو خوب جاننے والا ہے۔
1۔ اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ : کفر کا معنی ناشکری بھی ہے اور انکار بھی، یعنی اگر تم اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرو، جن کا اوپر ذکر ہوا ہے، یا ایمان کے بجائے کفر اختیار کرو تو یقیناً اللہ تم سے بہت بے پروا ہے، وہ تمھارا کسی طرح بھی محتاج نہیں، نہ اسے تمھارے شکر یا ایمان کا کوئی فائدہ ہے اور نہ تمھاری نا شکری یا کفر کا کوئی نقصان، تم ہی ہر طرح سے اس کے محتاج ہو۔ مزید دیکھیے سورۂ ابراہیم (۸)۔ 2۔ وَ لَا يَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ : ہاں، وہ اپنے بندوں کے لیے کفر اور ناشکری کو پسند نہیں کرتا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ کہنے کے بجائے کہ ’’وَلَا يَرْضٰي لَكُمُ الْكُفْرَ‘‘ (وہ تمھارے لیے ناشکری کو پسند نہیں کرتا) یہ فرمایا کہ وہ اپنے عباد (بندوں) کے لیے ناشکری کو پسند نہیں کرتا۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی مالک اپنے غلاموں کی ناشکری کو پسند نہیں کرتا، تم اپنے متعلق سوچ لو، کیا تم اپنے کسی غلام کی ناشکری اور بغاوت کو پسند کرو گے، حالانکہ غلام تمھارے جیسے انسان ہیں، تو اللہ اپنے غلاموں کی ناشکری اور کفر کو کیسے پسند فرمائے گا، جب کہ وہ اس کے پیدا کیے ہوئے اور ہر طرح سے اس کے محتاج ہیں؟ 3۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت اور ارادہ اور چیز ہے اور اس کی رضا اور پسند دوسری چیز ہے۔ دنیا میں کوئی بھی کام اس کی مشیّت اور ارادے کے بغیر نہیں ہو سکتا، مگر اس نے انسانوں کو اور جنّوں کو ایک حد تک اختیار دیا ہے، وہ چاہیں تو اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے اس پر ایمان لائیں اور اس کے احکام پر عمل کریں، یا چاہیں تو ناشکری کرتے ہوئے اس کے ساتھ کفر کریں اور اس کے احکام کی نافرمانی کریں۔ یہ اختیار دینے میں اس کی بے شمار حکمتیں ہیں، جن میں سے ایک بندوں کی آزمائش ہے، مگر وہ یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے بندے ہو کر وہ اس کی ناشکری اور نافرمانی کریں۔ مثلاً ابلیس اور تمام کفار کا کفر اس کی مشیّت اور ارادے کے ساتھ ہی ہے، وہ اللہ سے زبردست ہو کر نہیں بلکہ اس کے دیے ہوئے اختیار ہی کی وجہ سے کفر کر رہے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کو ان کا کفر کرنا پسند نہیں ہے۔ 4۔ وَ اِنْ تَشْكُرُوْا يَرْضَهُ لَكُمْ: ’’ يَرْضَهُ ‘‘ اصل میں ’’يَرْضَاهُ‘‘ ہے، ’’ اِنْ تَشْكُرُوْا ‘‘ شرط کی جزا ہونے کی وجہ سے اس پر جزم آئی، جس سے ’’الف‘‘ گر گیا۔ ’’هٗ‘‘ ضمیر ’’ تَشْكُرُوْا ‘‘ کے ضمن میں پائے جانے والے شکر کی طرف جا رہی ہے، یعنی اگر تم شکر کرو تو اللہ تعالیٰ اس شکر کو تمھارے لیے پسند فرمائے گا۔ 5۔ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى : یعنی تم میں سے ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے، کسی دوسرے شخص کے کہنے پر یا اسے راضی رکھنے کے لیے اگر کفر اختیار کرے گا تو کوئی اس کے کفر کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ’’ وَازِرَةٌ ‘‘ کے مؤنث ہونے کی وجہ جاننے اور مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ فاطر کی آیت (۱۸) کی تفسیر۔ 6۔ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ ....: یعنی دنیا میں تمھیں شکر یا کفر کا اختیار ہے، مگر آخر کار تم سب کو واپس اللہ کے پاس جانا ہے، جس نے تمھیں شروع میں پیدا فرمایا۔ وہ تمھیں تمھارے انھی اعمال کی خبر اور جزا دے گا جو تم کرتے رہے، یہ نہیں ہوگا کہ کسی اور کے عمل تمھارے ذمے ڈال دیے جائیں، یا تمھارے نیک یا بد اعمال غائب کر دیے جائیں۔ 7۔ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ: یہ اس سے پہلے جملے کی علت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کو تم میں سے ہر شخص کے اعمال اس کے سامنے پیش کرنا کچھ مشکل نہیں، کیونکہ وہ تو سینوں کی باتوں تک کو پوری طرح جاننے والا ہے، پھر کوئی قول یا عمل اس سے کس طرح مخفی رہ سکتا ہے؟