سورة ص - آیت 32

فَقَالَ إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَن ذِكْرِ رَبِّي حَتَّىٰ تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو اس نے کہا بے شک میں نے اس مال کی محبت کو اپنے رب کی یاد کی وجہ سے دوست رکھا ہے۔ یہاں تک کہ وہ پردے میں چھپ گئے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَقَالَ اِنِّيْ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّيْ : ’’ الْخَيْرِ ‘‘ کا معنی تو بھلائی ہے، مگر عموماً اس سے مراد مال ہوتا ہے، جیسا کہ انسان کے متعلق فرمایا : ﴿وَ اِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ ﴾ [ العادیات : ۸ ] ’’اور بے شک وہ مال کی محبت میں یقیناً بہت سخت ہے۔‘‘ یہ لفظ عموماً زیادہ مال پر بولا جاتا ہے۔ یہاں ’’ الْخَيْرِ‘‘ سے مراد وہ اصیل اور تیز رفتار گھوڑے ہیں جو پچھلے پہر ان کے سامنے پیش کیے گئے۔ ’’ الْخَيْرِ‘‘پر الف لام عہد کا ہے، اس لیے ’’حُبَّ الْخَيْرِ‘‘ کا ترجمہ’’اس مال کی محبت‘‘ کیا گیا ہے۔ ’’عَنْ ‘‘یہاں سببیہ ہے، جس کا معنی ’’کی وجہ سے‘‘ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَا اِيَّاهُ ﴾ [ التوبۃ : ۱۱۴] ’’اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا نہیں تھا مگر اس وعدے کی وجہ سے جو اس نے اس سے کیا تھا۔‘‘ 2۔ اس آیت میں سلیمان علیہ السلام کی جہاد سے محبت اور اس کے لیے گھوڑے پالنے اور ان کی تربیت کا ذکر فرمایا ہے، اس مقصد کے لیے انھوں نے بڑی تعداد میں اعلیٰ نسل کے تیز رفتار گھوڑے پال رکھے تھے۔ ایک دن پچھلے پہر ان کے سامنے اعلیٰ نسل کے وہ اصیل گھوڑے پیش کیے گئے جو کھڑے ہونے کی حالت میں اپنی طبیعت کی نفاست اور نزاکت کی وجہ سے تین ٹانگوں پر کھڑے ہوتے تھے، جبکہ چوتھی ٹانگ کے صرف کُھر کا کنارہ زمین پر لگتا تھا، مگر دوڑنے میں بہت تیز رفتار تھے، تو سلیمان علیہ السلام نے اتنے قیمتی گھوڑے رکھنے اور اپنے اوقاتِ عزیزہ ان کے معائنے اور دوڑانے میں صرف کرنے کی وجہ بیان کرنا ضروری سمجھا، تاکہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ یہ محض شاہانہ شان و شوکت کے اظہار کے لیے ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ میں نے اس مال یعنی گھوڑوں کی محبت کو دوست رکھا ہے اور اختیار کیا ہے تو اپنے رب کے ذکر کی وجہ سے کہ ان کے ساتھ جہاد کرکے اپنے رب کا ذکر دنیا بھر میں پھیلاؤں اور اس کا بول سب پر بالا کروں۔ حَتّٰى تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ : ’’ تَوَارَتْ ‘‘ اصل میں ’’تَوَارَيَتْ‘‘ ہے، ’’تَوَارٰي يَتَوَارٰي تَوَارِيًا‘‘ (تفاعل) (چھپ جانا) سے واحد مؤنث غائب ماضی معلوم کا صیغہ ہے، جو گھوڑوں کی جماعت پر بولا گیا ہے۔ یعنی گھوڑوں کی وہ جماعت نگاہ سے پردے میں چھپ گئی۔ ’’حَتّٰى ‘‘ (یہاں تک کہ) کا لفظ بتا رہا ہے کہ اس سے پہلے کچھ عبارت محذوف ہے، جو یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے حکم پر ان کی دوڑ لگوائی گئی، یہاں تک کہ وہ نگاہ سے پردے میں چھپ گئے۔