قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ ۖ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩
اس نے کہا بلاشبہ یقیناً اس نے تیری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کے مطالبے کے ساتھ تجھ پر ظلم کیا ہے اور بے شک بہت سے شریک یقیناً ان کا بعض بعض پر زیادتی کرتا ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور یہ لوگ بہت ہی کم ہیں۔ اور داؤد نے یقین کرلیا کہ بے شک ہم نے اس کی آزمائش ہی کی ہے تو اس نے اپنے رب سے بخشش مانگی اور رکوع کرتا ہوا نیچے گرگیا اور اس نے رجوع کیا۔
1۔ قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِهٖ : داؤد علیہ السلام نے فرمایا کہ اس نے تمھاری دنبی اپنی دنبیوں کے ساتھ ملا لینے کا مطالبہ کرکے یقیناً تم پر ظلم کیا ہے۔ یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ لوگ دیوار پھاند کر آئے، پھر انھوں نے مقدمہ پیش کرتے ہوئے اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ وہ اس شخص سے ہم کلام ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ حکومت کا شرف بھی عطا فرمایا ہے اور جس سے حق کے خلاف یا بے انصافی پر مبنی فیصلہ کرنے کی توقع نہیں۔ اس کے باوجود وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور بے انصافی نہ کریں۔ یہ دونوں جملے ہی کسی شخص کا غصہ بھڑکانے کے لیے کافی ہیں، کجا یہ کہ ایسا کہنے والے پہلے دیوار پھاند کر آنے کی گستاخی بھی کر چکے ہوں۔ اگر کوئی دنیا دار بادشاہ ہوتا تو یہ لوگ قتل کر دیے جاتے، یا کوئی اور عبرت ناک سزا پاتے، تاکہ آئندہ کسی کو ایسی جرأت نہ ہو، مگر داؤد علیہ السلام کا صبر اور حلم دیکھیے کہ پہلے کچھ خوف زدہ ہونے کے باوجود نہ غصے میں آئے اور نہ انھیں ملامت کا ایک لفظ بھی کہا، بلکہ ان کے اس طرح آنے اور نامناسب الفاظ کہنے کو صبر سے برداشت کیا اور وہ جس مقصد کے لیے آئے تھے اسے پورا کرتے ہوئے ان کے مقدمے کا فیصلہ فرما دیا۔ یہ نبیوں ہی کا حوصلہ ہو سکتا ہے، جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلقین کی گئی کہ کفار کی باتوں پر صبر کریں اور ہمارے بندے داؤد علیہ السلام کو یاد کریں۔ 2۔ وَ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْخُلَطَآءِ ....: مظلوم کو تسلی دیتے ہوئے داؤد علیہ السلام نے بہت سے لوگوں کے اس کی طرح مظلوم ہونے کا ذکر فرمایا کہ تم اکیلے مظلوم اور یہ اکیلا ظالم نہیں ہے، بلکہ بہت سے شریک ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں، کیونکہ جب آدمی دیکھتا ہے کہ اس کے ساتھ اور لوگ بھی مظلوم ہیں تو اسے کچھ حوصلہ ہو جاتا ہے، ’’لِأَنَّ الْمُصِيْبَةَ إِذَا عَمَّتْ طَابَتْ‘‘ ’’کیونکہ جب مصیبت عام ہوتی ہے تو برداشت ہو جاتی ہے۔‘‘ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ایمان اور عمل صالح والے لوگ ایسا نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنے شریک پر ظلم سے اجتناب کرتے ہیں۔ اس میں ننانوے دنبیوں والے کے لیے نصیحت بھی ہے کہ وہ ظلم سے باز آ جائے اور انبیاء علیھم السلام کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ 3۔ وَ قَلِيْلٌ مَّا هُمْ: یعنی ایمان اور عمل صالح والے لوگ، جو اپنے شریک پر ظلم نہ کریں، وہ بہت ہی کم ہیں، اکثریت کا حال اس کے خلاف ہے۔ جمہوریت کے علم برداروں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ اس مفہوم کی مزید آیات کے لیے دیکھیے سورۂ سبا (۱۳)، بقرہ (۲۴۳)، انعام (۱۱۷)، ہود (۱۷)، یوسف (۱۰۳، ۱۰۶)، زخرف (۷۸)، اور سورۂ مائدہ (۱۰۰)۔ 4۔ وَ ظَنَّ دَاؤدُ:’’ ظَنَّ ‘‘ راجح گمان کو کہتے ہیں، قرائن سے حاصل ہونے والے یقین پر بھی ’’ظن‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ ظَنُّوْا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّا اِلَيْهِ ﴾ [ التوبۃ : ۱۱۸ ] ’’اور انھوں نے یقین کر لیا کہ اللہ سے پناہ کی کوئی جگہ اس کی جناب کے سوا نہیں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ﴾ [ البقرۃ : ۴۶ ] ’’جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور یہ کہ وہ اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘ یہاں ’’ ظَنَّ ‘‘ کا معنی ’’شَعُرَ‘‘ (سمجھ گیا) ہے، یا ’’أَيْقَنَ‘‘ (یقین کر لیا) ہے، کیونکہ اس کے بعد ’’أَنَّ‘‘ حرف تاکید آ رہا ہے۔ 5۔ اَنَّمَا فَتَنّٰهُ : یعنی داؤد علیہ السلام کو یقین ہو گیا کہ ان لوگوں کا اس طرح دیوار پھلانگ کر آنا میری آزمائش ہے کہ میں اپنی کوتاہی پر متنبّہ ہو کر اسے ترک کرتا اور اس کی معافی مانگتا ہوں یا نہیں۔ 6۔ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهٗ : تو انھوں نے اپنے رب سے معافی مانگی اور بخشش کی دعا کی۔ 7۔ وَ خَرَّ رَاكِعًا وَّ اَنَابَ : رکوع کا معنی جھکنا یا سر جھکانا ہے۔ ’’ خَرَّ ‘‘ زمین پر گر پڑا۔ یعنی وہ رکوع کرتے ہوئے نیچے گر گئے، مراد یہ ہے کہ وہ جھکتے ہوئے سجدے میں گر گئے۔ اس لیے بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہاں رکوع سے مراد سجدہ ہے۔ ’’ وَ اَنَابَ ‘‘ (اور انھوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا) بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ’’داؤد علیہ السلام چالیس دن سجدے میں پڑے روتے رہے، حتیٰ کہ ان کے آنسوؤں سے زمین پر سبزہ اُگ آیا۔‘‘ ایسی باتیں تردید کے بغیر لکھنے والوں پر افسوس ہوتا ہے کہ وہ ایسی باتیں لکھ رہے ہیں جو نہ صرف یہ کہ قرآن یا حدیث میں نہیں آئیں بلکہ صاف عقل کے خلاف ہیں۔ چالیس دن ان کے کھانے پینے اور دوسری ضروریات زندگی، نماز اور امور مملکت کی نگرانی وغیرہ کا کیا بنا؟ یہ نتیجہ ہے سنی سنائی بات اندھا دھند نقل کرنے کا، خواہ وہ اسرائیلی روایت ہو یا کسی اور کی بنائی ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كَفٰي بِالْمَرْئِ كَذِبًا أَنْ يُّحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ )) [ مسلم، المقدمۃ : ۵، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات آگے بیان کر دے۔‘‘ 8۔ ان آیات کو سمجھنے میں اکثر لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے، جس کی وجہ مسلمانوں کا قرآن کی تفسیر میں اسرائیلی روایات پر اعتماد ہے، حالانکہ یہود کی اللہ کے پیغمبروں خصوصاً داؤد و سلیمان علیھما السلام سے دشمنی سب کو معلوم ہے۔ اگر کوئی شخص ان روایات سے ذہن کو صاف کر لے تو آیات کا مطلب سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ اس لیے پہلے آیات کا مطلب بیان کیا جاتا ہے، اس کے بعد ان روایات کے متعلق مختصر سی بات ہو گی۔ ان آیات کو سمجھنے کے لیے ان سے پہلی آیات پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے: (۱) یہ بات بالکل واضح ہے کہ آیات کے اس سلسلہ میں قرآن مجید داؤد علیہ السلام کی تعریف بیان فرما رہا ہے۔ (3) قرآن کے الفاظ یا مفہوم میں کوئی اشارہ بھی نہیں کہ یہ کوئی رمز یا کنایہ کی بات ہے، جو اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کے کسی ایسے فعل پر ناراضی کے اظہار کے لیے فرمائی ہے جو شریعت کے خلاف یا فضیلت کے خلاف تھا۔ (3) اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم کی باتوں پر صبر کا حکم دیتے ہوئے داؤد علیہ السلام کو نمونے کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرما رہے ہیں کہ اگر آپ کا سینہ اپنی قوم کے کفر سے تنگ ہوتا ہے تو صبر کریں اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کریں۔ ساتھ ہی داؤد علیہ السلام کا ذکر نہایت عزت و تکریم کے ساتھ کیا ہے اور ان کی تعریف بہت بلند اوصاف کے ساتھ فرمائی ہے :(1) انھیں ’’ عَبْدَنَا ‘‘ (ہمارا بندہ) کہا ہے، یہ اکیلا لفظ ہی سب اوصاف پر بھاری ہے، جیسا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا : ﴿ سُبْحٰنَ الَّذِيْ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ ﴾ [ بني إسرائیل : ۱ ] ’’پاک ہے وہ جو رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو حرمت والی مسجد سے بہت دور کی اس مسجد تک لے گیا جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت دی۔‘‘ (2) پھر بتایا کہ وہ ’’ ذَا الْاَيْدِ ‘‘ (حق کی قوت والے تھے) (3) ’’ اَوَّابٌ ‘‘ (اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے) تھے۔ (4) ’’ اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَ الْاِشْرَاقِ ‘‘ (ہماری طرف سے پہاڑ ان کے ہمراہ مسخر تھے، صبح و شام تسبیح کرتے تھے) (5) ’’ وَ الطَّيْرَ مَحْشُوْرَةً ‘‘ (جمع کیے پرندے بھی ان کے ہمراہ تسبیح کے لیے مسخر تھے) (6) ’’ وَ شَدَدْنَا مُلْكَهٗ ‘‘ (اور ہم نے اس کی سلطنت مضبوط کر دی) (7) ’’ وَ اٰتَيْنٰهُ الْحِكْمَةَ ‘‘ (اور انھیں حکمت عطا فرمائی) (8) ’’ وَ فَصْلَ الْخِطَابِ ‘‘ (اور فیصلہ کن گفتگو عطا فرمائی) (9) اس کے بعد یہ واقعہ ذکر فرمایا، جس کے بعد پہلے دنیا میں انھیں عطا ہونے والا مقام ذکر فرمایا : ’’ يٰدَاؤدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ ‘‘ (اے داؤد! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا) (10) پھر اپنے ہاں ان کا مرتبہ اور آخرت میں ان کا مقام بیان فرمایا : ’’ وَ اِنَّ لَهٗ عِنْدَنَا لَزُلْفٰى ‘‘ (اور بلاشبہ اس کے لیے ہمارے پاس یقیناً بڑا قرب ہے) (11) ’’ وَ حُسْنَ مَاٰبٍ ‘‘ (اور اچھا ٹھکانا ہے)۔ ان اوصاف سے ظاہر ہے کہ داؤد علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نہایت مقرّب اور محبوب پیغمبر تھے اور ایسی تمام روایات ان پر صریح بہتان اور ظلم ہیں جن سے وہ ایک عام شریف آدمی سے بھی فرو تر نظر آتے ہیں، تو پھر ان آیات کا مطلب کیا ہے اور ان دو جھگڑنے والوں کا مقصد کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ داؤد علیہ السلام نبی تھے اور بادشاہ بھی اور یہ دونوں بہت بھاری ذمہ داریاں ہیں۔ ان کے علاوہ انھیں اللہ تعالیٰ کی عبادت یعنی تسبیح، ذکر الٰہی، تلاوت، قیام اللیل اور روزوں کا بہت شوق تھا، اس لیے اس کے بغیر چارہ ہی نہ تھا کہ وہ تسبیح و ذکر، نبوت کے فرائض اور بادشاہت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے اپنے اوقات تقسیم کریں۔ اس کے ساتھ یہ بھی شامل کر لیں کہ وہ صرف اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے، جس کے لیے انھیں لوہے کی زرہیں بنانے کا مشکل اور باریک کام کرنا پڑتا تھا، سورۂ سبا کی آیت (۱۱) : ﴿ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِي السَّرْدِ ﴾ ( کہ کشادہ زرہیں بنا اور کڑیاں جوڑنے میں اندازہ رکھ) سے ان کے کام کی مشقت اور باریکی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اب نبوت، سلطنت، عبادت اور کمائی کے لیے وقت کیسے تقسیم کریں؟ اس کے لیے انھوں نے کچھ اوقات نبوت و سلطنت اور کمائی کے امور کے لیے رکھے اور کچھ وقت عبادت کے لیے خاص کر لیا، جس میں وہ اپنے محراب (عبادت خانے) سے نہیں نکلتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ داؤد علیہ السلام کو اس بات کا پتا چل جائے کہ جب وہ عبادت کے لیے خلوت اختیار کرتے ہیں اس وقت بھی لوگوں کے ایک دوسرے پر ایسے ظلم واقع ہوتے ہیں جن کے لیے داؤد علیہ السلام کے عدل کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان دو جھگڑنے والوں کے لیے یہ آسانی پیدا فرمائی کہ دروازے بند ہونے اور پہرے داروں کی موجودگی کے باوجود وہ دیوار پھاند کر ان کے عبادت خانے میں داخل ہو گئے اور ان میں سے ایک نے اپنا قصہ سنایا اور وہ ظلم بیان کیا جو اس کے بھائی نے اس پر کیا تھا کہ کس طرح وہ بہت دولت مند اور ننانوے دنبیوں کا مالک ہونے کے باوجود اپنے فقیر بھائی سے، جو صرف ایک دنبی کا مالک ہے، اس کی واحد ملکیت بھی بہت سختی کے ساتھ اپنے سپرد کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ داؤد علیہ السلام ان کے اس طرح آنے پر پہلے گھبرائے، مگر جب حقیقت حال معلوم ہوئی تو نہ ان سے ناراض ہوئے اور نہ انھیں پھر آنے کی تاریخ دی، بلکہ ان کا مقدمہ سن کر فوراً فیصلہ فرما دیا۔ ساتھ ہی سمجھ گئے کہ عبادت والے دن بھی لوگوں کے درمیان جھگڑے اور ایک دوسرے پر ظلم ہوتے ہیں، مگر ان کے عبادت میں مصروف ہونے کی وجہ سے مظلوم ان کے پاس فریاد لے کر نہیں پہنچ سکتے، حالانکہ لوگوں کے درمیان صلح اور مظلوم کی مدد عبادت خانے کی خلوت سے افضل ہے اور انھیں یقین ہو گیا کہ ان لوگوں کے اس طرح آنے سے اللہ تعالیٰ نے میری آزمائش کی ہے کہ میں یہ بات سمجھتا ہوں یا نہیں کہ عبادت میں ایسی مصروفیت نہیں ہونی چاہیے کہ مظلوم کو عدالت تک رسائی نہ ہو سکے۔ اس لیے انھوں نے اپنی اس کوتاہی پر اپنے رب سے معافی مانگی اور اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے سجدے میں گر گئے، تو ہم نے انھیں معاف کر دیا۔ 9۔ اکثر مفسرین نے داؤد علیہ السلام کی کوئی ایسی غلطی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جو ننانوے دنبیوں اور ایک دنبی کے واقعہ سے ملتی جلتی ہو۔ حالانکہ یہ واقعہ انتہائی ظلم اور مظلومیت کی ایک تصویر ہے کہ ایک بہت دولت مند شخص اپنے فقیر بھائی سے اس کی ایک دنبی بھی چھین لینا چاہتا ہے اور حاکم وقت دروازے بند کرکے عبادت میں مصروف ہے، اب مظلوم کیا کرے؟ بعض لوگوں نے کہا، وہ دوسرے دن پیش ہو سکتے تھے، مگر سب جانتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر بھی ظلم کے مترادف ہوتی ہے۔ دیوار پھاند کر جانے سے اور قصہ سنانے سے داؤد علیہ السلام پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے، جس کا کام لوگوں کے فیصلے کرنا ہے۔ عبادت کریں، مگر اس طرح نہیں کہ فریادی آپ کی عدالت میں بار نہ پا سکیں، فرمایا : ﴿ يٰدَاؤدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِ ﴾ [ صٓ : ۲۶ ] ’’اے داؤد! بے شک ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، سو تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر اور خواہش کی پیروی نہ کر، ورنہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ یقیناً وہ لوگ جو اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں، ان کے لیے سخت عذاب ہے، اس لیے کہ وہ حساب کے دن کو بھول گئے۔‘‘ ’’خلیفہ‘‘ سے مراد حاکم ہے، جو پہلے لوگوں کی جگہ حکمران بنتا ہے، ’’اللہ کا خلیفہ‘‘ کہنا درست نہیں۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۳۰)۔ 10۔ بعض لوگوں نے ان دو جھگڑنے والوں کو فرشتے بتایا ہے اور لکھا ہے کہ داؤد علیہ السلام نے فیصلہ کیا تو وہ ہنس پڑے اور غائب ہو گئے۔ یہ ساری بات ہی بے اصل ہے، جس کا قرآن و حدیث میں کوئی وجود نہیں۔ 11۔ داؤد علیہ السلام کی غلطی نکالتے ہوئے اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ ایک عورت کو نہاتے ہوئے دیکھ کر اس پر عاشق ہو گئے اور اس کے خاوند ’’اوریاہ‘‘ کو جہاد میں ایسی جگہ مقرر کرنے کا حکم دیا جہاں وہ قتل ہو گیا تو اس کی بیوی سے نکاح کر لیا، حالانکہ ان کی ننانوے بیویاں موجود تھیں۔ بعض نے کہا، اس سے طلاق دینے کا تقاضا کیا، جسے وہ ٹھکرا نہ سکا، تو اس سے نکاح کر لیا۔ یہودی ملعون یہاں تک پہنچ گئے کہ انھوں نے داؤد علیہ السلام پر بہتان باندھتے ہوئے تورات میں بھی تحریف کر دی اور کہا کہ انھوں نے اوریاہ کی بیوی کو نہاتے ہوئے دیکھ کر اٹھوا لیا اور (نعوذ باللہ) اس سے ہم بستر ہوئے، جس سے وہ حاملہ ہو گئی، پھر اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مروا دیا اور اس کی عدت ختم ہونے کے بعد اسے اپنی بیوی بنا لیا، جس سے لڑکا پیدا ہوا، جس سے اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوا۔ (خلاصہ سموئیل دوم، باب ۱۱، فقرہ ۲ سے ۲۷ تک) بعض حضرات نے داؤد علیہ السلام کی یہ غلطی نکالی ہے کہ انھوں نے صرف مدّعی کی بات سن کر فیصلہ کر دیا، جب کہ انھیں دوسرے فریق کی بات سننا بھی ضروری تھا۔ حالانکہ وہاں اختصار کے لیے دوسرے فریق کی بات کا ذکر نہیں ہوا۔ کسی بات کے ذکر نہ ہونے سے اس کی نفی نہیں ہوتی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے خاموش رہ کر مظلوم کے دعویٰ کو قبول کر لیا ہو۔ یہ اور اس جیسی کئی فضول باتیں بعض مفسرین نے داؤد علیہ السلام پر بہتان باندھتے ہوئے لکھی ہیں، جب کہ اسرائیلی روایات پر اعتماد جائز ہی نہیں، خصوصاً جب ان سے کسی پیغمبر کی عزت و عصمت پر حرف آتا ہو۔ اس معاملے میں مفسر ابن کثیر رحمہ اللہ کا کلام بہت عمدہ ہے، وہ لکھتے ہیں : ’’ قَدْ ذَكَرَ الْمُفَسِّرُوْنَ هَاهُنَا قِصَّةً أَكْثَرُهَا مَأْخُوْذٌ مِّنَ الإِْسْرَائِيْلِيَّاتِ وَلَمْ يَثْبُتْ فِيْهَا عَنِ الْمَعْصُوْمِ حَدِيْثٌ يَجِبُ اتِّبَاعُهُ وَلٰكِنْ رَوَي ابْنُ أَبِيْ حَاتِمٍ هُنَا حَدِيْثًا لَا يَصِحُّ سَنَدُهُ، لِأَنَّهُ مِنْ رِوَايَةِ يَزِيْدَ الرُّقَاشِيِّ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، وَ يَزِيْدُ وَ إِنْ كَانَ مِنَ الصَّالِحِيْنَ، لٰكِنَّهُ ضَعِيْفُ الْحَدِيْثِ عِنْدَ الْأَئِمَّةِ، فَالْأَوْلٰي أَنْ يُّقْتَصَرَ عَلٰي مُجَرَّدِ تِلَاوَةِ هٰذِهِ الْقِصَّةِ وَ أَنْ يُّرَدَّ عِلْمُهَا إِلَي اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنَّ الْقُرْآنَ حَقٌّ وَمَا تُضَمِّنُ فَهُوَ حَقٌّ أَيْضًا ‘‘ ’’مفسرین نے یہاں ایک قصہ ذکر کیا ہے، جس کا اکثر حصہ اسرائیلیات سے لیا گیا ہے اور اس کے متعلق معصوم (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کوئی حدیث ثابت نہیں، جس کی پیروی واجب ہو۔ لیکن ابن ابی حاتم نے یہاں ایک حدیث بیان کی ہے جس کی سند صحیح نہیں، کیونکہ وہ یزید رقاشی کی روایت سے ہے، جو وہ انس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔ یزید اگرچہ نیک لوگوں سے ہے، لیکن وہ ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف الحدیث ہے۔ سو بہتر یہ ہے کہ اس قصے کی صرف تلاوت پر اکتفا کیا جائے اور اس کا علم اللہ عز و جل کی طرف لوٹا دیا جائے، کیونکہ قرآن حق ہے اور جو کچھ اس میں ہے، وہ بھی حق ہے۔‘‘