فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّىٰ حِينٍ
سو ایک وقت تک ان سے منہ موڑ لے۔
فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتّٰى حِيْنٍ ....: ’’ایک وقت‘‘ سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب تک ہم آپ کو جنگ کی اجازت نہیں دیتے آپ انھیں ان کے حال پر چھوڑے رکھیں، بس زبانی طور پر دعوت و تبلیغ کا کام کرتے رہیں اور انھیں دیکھتے جائیں، بہت جلد یہ اپنا انجام دیکھ لیں گے۔ یاد رہے، یہ آیات مکی دور کی ہیں۔ اور ’’ایک وقت‘‘ سے ’’یوم بدر‘‘ بھی مراد ہو سکتا ہے اور فتح مکہ بھی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، ہجرت کے بعد جب جہاد شروع ہوا تو کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ کفار نے اپنی شکست اور مسلمانوں کی فتح کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور ان آیات کے اترنے کے بعد چودہ، پندرہ سال ہی گزرے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس مکہ سے چھپ کر نکلے تھے، اسی مکہ میں دن کی روشنی میں دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ فاتحانہ شان سے داخل ہوئے اور کوئی مقابلے میں نہ ٹھہر سکا۔ پھر چند سال بعد ہی ساری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ مسلمان صرف عرب ہی نہیں بلکہ روم، مصر اور ایران وغیرہ پر بھی غالب آ گئے۔