أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ
کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور بنانے والوں میں سے سب سے بہتر کو چھوڑ دیتے ہو؟
1۔ اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا : قرآن کے متعدد مقامات پر لفظ ’’ بَعْلًا ‘‘ شوہر کے معنی میں آیا ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۲۸) اور نساء (۱۲۷) اس کا معنی مالک اور آقا بھی ہے۔ مشرک اقوام اس لفظ کو رب یا معبود کے معنی میں استعمال کرتی ہیں، اس لیے الیاس علیہ السلام کی قوم نے اپنے سب سے بڑے بت کا نام ’’بعل‘‘ رکھا ہوا تھا۔ الیاس علیہ السلام نے انھیں سمجھایا کہ کیا تم ’’بعل‘‘ نامی بت کو پوجتے ہو؟ 2۔ وَ تَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِيْنَ : اور بنانے والوں میں سب سے بہتر یعنی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ دیتے ہو۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اور بھی کوئی پیدا کرنے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب پیدا کرنے والوں سے بہتر فرمایا؟ جواب اس کا یہ ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء کو جوڑ کر کوئی چیز بنانے پر بھی ’’خلق‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً انسان لوہے وغیرہ سے مشینیں اور موٹریں وغیرہ بنا لیتا ہے، مگر ان سب میں وہ اللہ کے بنائے ہوئے مادے کا محتاج ہے۔ اس لیے اس کی بنائی ہوئی ہر چیز بھی اللہ ہی کی (خلق) پیدا کردہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ ﴾ [الصافات:۹۶] ’’حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو۔‘‘ البتہ ابتدا میں کسی چیز کو پیدا کرنا یا چیزیں جوڑ کر ان میں روح ڈال دینا صرف اس پاک پروردگار کا کام ہے۔ (دیکھیے حج : ۷۳) اس لیے اسے ’’ اَحْسَنَ الْخَالِقِيْنَ‘‘ فرمایا۔