وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ
اور ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی، جو نبی ہوگا، صالح لوگوں سے (ہو گا)۔
وَ بَشَّرْنٰهُ بِاِسْحٰقَ نَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ : اہلِ کتاب کا کہنا ہے کہ ذبح کا یہ واقعہ اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ نہیں بلکہ اسحاق علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا۔ بعض مسلم مفسرین نے بھی یہی بات کہی ہے، مگر یہ درست نہیں، کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے ملنے والے بیٹے کو ذبح کرنے کے حکم کے ساتھ آزمائش کے بعد اسحاق علیہ السلام کی خوش خبری کا ذکر فرمایا اور اس بات پر مسلمانوں کا اور اہلِ کتاب کا اتفاق ہے کہ اسماعیل علیہ السلام پہلے پیدا ہوئے تھے۔ ایک اور نہایت مضبوط دلیل اس کی یہ ہے کہ جب فرشتوں نے ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کو اسحاق علیہ السلام کی خوش خبری دی تو اس کے ساتھ ہی فرمایا : ﴿وَ مِنْ وَّرَآءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ﴾ [ ھود : ۷۱ ] کہ اسحاق( علیہ السلام ) کے بعد ان کے بیٹے یعقوب( علیہ السلام ) ہوں گے، ظاہر ہے یہ وہ بیٹا ہو ہی نہیں سکتا جسے دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچتے ہی ذبح کا حکم دیا جانے والا تھا، کیونکہ ان کے متعلق تو اتنی عمر تک زندہ رہنے کی بشارت تھی کہ پورے جوان ہو کر ان کی شادی ہو گی، پھر اولاد ہو گی۔ اس کے علاوہ تورات میں اکلوتے بیٹے کی قربانی کا ذکر ہے (دیکھیے پیدائش :۲۲۔۲) اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اکلوتے بیٹے اسماعیل علیہ السلام تھے۔ اس کے باوجود اہلِ کتاب نے تحریف کر کے اسحاق علیہ السلام کو ذبیح لکھ دیا۔ پھر اس مینڈھے کے سینگوں کا کعبہ میں مدت تک رہنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ مکہ میں ہوا۔ اگر یہ واقعہ اسحاق علیہ السلام سے متعلق ہوتا تو شام میں ہوتا، مکہ سے اس کا تعلق نہ ہوتا۔