كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ ۗ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
کھانے کی ہر چیز بنی اسرائیل کے لیے حلال تھی مگر جو اسرائیل نے اپنے آپ پر حرام کرلی، اس سے پہلے کہ تورات اتاری جائے، کہہ دے تو لاؤ تورات، پھر اسے پڑھو، اگر تم سچے ہو۔
كُلُّ الطَّعَامِ....: اوپر کی آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات میں دلائل پیش کیے اور اہل کتاب پر الزامات قائم کیے ہیں۔ اب یہاں سے ان کے شبہات کا جواب ہے، جو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر پیش کرتے تھے۔ (رازی) جب قرآن نے بیان کیا کہ یہود کے ظلم اور سرکشی کی وجہ سے بہت سی وہ چیزیں ان پر حرام کر دی گئیں [ النساء:۱۶۰۔ الانعام:۱۴۶] جو ابراہیم علیہ السلام کے عہدِ نبوت میں حلال تھیں، تو یہود نے ان آیات کو جھٹلایا اور کہنے لگے کہ یہ چیزیں تو ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے حرام چلی آئی ہیں، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔(شوکانی) بعض مفسرین نے ان آیات (94،93) کی شانِ نزول میں لکھا ہے کہ یہود تورات میں نسخ کے قائل نہیں تھے اور عیسیٰ علیہ السلام کو بھی یہود نے اسی لیے جھٹلا دیا تھا کہ وہ تورات میں بعض حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیتے تھے اور اسی لیے انھوں نے قرآن کے ناسخ و منسوخ پر بھی اعتراض کیا تو ان کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں کہ یہ نسخ تو خود تمہاری شریعت میں بھی موجود ہے کہ جب تک تورات نازل نہیں ہوئی تھی تو کھانے کی تمام چیزیں تمہارے لیے حلال تھیں، جن میں اونٹ کا گوشت اور دودھ بھی شامل ہے، پھر جب یعقوب علیہ السلام عرق النساء کے مرض میں مبتلا ہوئے تو انھوں نے صحت یاب ہونے پر بطور نذر اونٹ کا گوشت حرام قرار دے لیا۔ پھر جب تورات نازل ہوئی تو اس میں اونٹ کا گوشت اور دودھ حرام قرار دے دیا گیا۔ (ابن کثیر، الکشاف) حلال کو حرام قرار دے لینے کی یہ نذر ان کی شریعت میں جائز تھی۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک واقعہ میں شہد پینے کو اپنے اوپر حرام قرار دے لیا تھا، گو یہ نذر نہ تھی مگر قرآن نے اس قسم کی نذر سے اور حلال کو حرام کرنے سے منع فرما دیا اور کفارہ مقرر فرما دیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ تحریم۔ بعض نے لکھا ہے کہ یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے سلسلہ میں یہ اعتراض بھی کرتے تھے کہ یہ پیغمبر خود کو ملتِ ابراہیمی کے اتباع کا دعوے دار بتاتا ہے اور اونٹ کا گوشت کھاتا ہے، حالانکہ یہ گوشت ملتِ ابراہیمی میں حرام ہے، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ تورات کے اترنے سے پہلے تو یہ سب چیزیں حلال تھیں، پھر ملتِ ابراہیمی میں یہ کیسے حرام ہو سکتی ہیں، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو تورات میں دکھا ؤ ، ورنہ اللہ تعالیٰ پر اس قسم کے بہتان گھڑنے سے باز رہو۔ (ابن کثیر) مسند احمد میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہود کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چار سوال اور ان کے جواب مذکور ہیں۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ کھانے کی وہ کون سی چیزیں تھیں جنھیں یعقوب علیہ السلام نے تورات نازل ہونے سے پہلے اپنے لیے حرام قرار دے لیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب یہ دیا کہ اسرائیل یعنی یعقوب علیہ السلام جب سخت بیمار ہو گئے تھے، ان کی بیماری بہت طول اختیار کر گئی تو انھوں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ انھیں شفا عطا فرما دے تو وہ اپنے پسندیدہ کھانے اور پسندیدہ مشروب کو ترک کر دیں گے اور ان کا پسندیدہ کھانا اونٹ کا گوشت اور پسندیدہ مشروب اونٹ کا دودھ تھا۔ یہ بات سن کر یہود نے آپ کی تصدیق کی، آپ نے فرمایا:’’اے اللہ! تو ان پر گواہ ہو جا۔‘‘ [ أحمد:278؍1، ح:۲۵۱۸، و حسنہ و صححہ أحمد شاکر و الحاکم و وافقہ الذھبی۔ المعجم الکبیر للطبرانی:191،190؍12، ح:۱۳۰۱۲ ] اس واقعہ کی ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾سے مناسبت بھی ظاہر ہے۔