كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ
جیسے وہ چھپا کر رکھے ہوئے انڈے ہوں۔
كَاَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ: ’’ بَيْضٌ ‘‘ ’’بَيْضَةٌ‘‘ کی جمع ہے، انڈے۔ انڈے کا رنگ عموماً سفید سرخی مائل ہوتا ہے، جس میں کچھ زردی کی آمیزش ہوتی ہے۔ یہ رنگ چھپا کر رکھنے سے قائم رہتا ہے، ورنہ اڑجاتا ہے۔ خصوصاً شتر مرغ کے انڈے اس رنگ کے ہوتے ہیں اور شتر مرغ انھیں اپنے ملائم اور نرم پروں کے ریشوں کے فرش پر رکھ کر انھی کے ساتھ ڈھانپ دیتا ہے۔ عرب لوگ عورتوں کے ایسے رنگ کو بہت پسند کرتے ہیں اور انھیں چھپائے ہوئے انڈوں کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں۔ اشرف الحواشی میں ہے : ’’بعض مفسرین نے ’’ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ ‘‘ کی تفسیر ’’انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی‘‘ سے کی ہے اور اس کی یہی تفسیر ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے، اس لیے اس کی یہی تفسیر صحیح ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ ‘‘ کا مطلب دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ان کی (یعنی جنت کی حوروں کی) نرمی اور نزاکت اس جھلی جیسی ہو گی جو انڈے کے چھلکے سے چپکی ہوتی ہے اور اسے ’’غِرْقِيٌّ‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘ (ابن کثیر، ابن جریر ) قاموس میں ہے : ’’غَرْقَأَتِ الدَّجَاجَةُ بَيْضَتَهَا‘‘ ’’مرغی نے سخت چھلکے کے بغیر انڈا دیا۔‘‘ مگر تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے : ’’اسے طبری اور طبرانی نے ایک ہی سند اور متن کے ساتھ روایت کیا ہے اور اس کی سند سلیمان بن ابی کریمہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اسے عقیلی اور ابن عدی نے ضعیف کہا ہے۔‘‘ علاوہ ازیں قرآن میں ان عورتوں کو ’’ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُوْنِ ‘‘ بھی کہا گیا ہے، اس لیے ’’ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ ‘‘ اور ’’ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُوْنِ ‘‘ کی مناسبت مدنظر رہنی چاہیے۔ (واللہ اعلم)