سورة يس - آیت 77

أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ بے شک ہم نے اسے ایک قطرے سے پیدا کیا تو اچانک وہ کھلا جھگڑنے والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَوَ لَمْ يَرَ الْاِنْسَانُ : یہاں سے سورت کے آخر تک کفار کے اس انکار کا دلیل کے ساتھ جواب ہے جو وہ قیامت کا مذاق اڑانے کے لیے سوال کی صورت میں کرتے تھے کہ ’’ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ‘‘ قیامت کا وعدہ کب پورا ہو گا؟ یعنی قیامت وغیرہ کچھ نہیں، نہ ہی کوئی مر کر زندہ ہو سکتا ہے۔ ’’ اَوَ لَمْ يَرَ ‘‘ (اور کیا انسان نے نہیں دیکھا) سے مراد ہے ’’أَوَلَمْ يَعْلَمْ‘‘ (اور کیا انسان کو معلوم نہیں)۔ کیونکہ کسی بھی شخص نے اپنا نطفے سے پیدا ہونا آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ : ’’ نُطْفَةٍ ‘‘ ’’نَطَفَ يَنْطُفُ‘‘ (ن، ض) ٹپکنا، اس میں تنوین تحقیر کے لیے ہے، معمولی اور حقیر قطرہ، یعنی کیا انسان کو معلوم نہیں کہ ہم نے انسان کو ایک حقیر قطرے سے پیدا کیا ہے؟ بسر بن جحاش القرشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (( بَزَقَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فِيْ كَفِّهِ، ثُمَّ وَضَعَ أُصْبَعَهُ السَّبَّابَةَ وَقَالَ يَقُوْلُ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنّٰی تُعْجِزُنِي ابْنَ آدَمَ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ مِثْلِ هٰذِهِ، فَإِذَا بَلَغَتْ نَفْسُكَ هٰذِهِ، وَأَشَارَ إِلٰی حَلْقِهِ، قُلْتَ أَتَصَدَّقُ، وَأَنّٰی أَوَانُ الصَّدَقَةِ؟ )) [ابن ماجہ، الوصایا، باب النھي عن الإمساک....: ۲۷۰۷، قال البوصیري صحیح وقال الألباني حسن ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی پر تھوکا، پھر اپنی شہادت کی انگلی اس پر رکھی اور فرمایا : ’’اللہ عز و جل فرماتا ہے، اے ابن آدم! تو مجھے کیسے عاجز کر سکتا ہے، حالانکہ میں نے تجھے اس جیسی چیز سے پیدا کیا ہے اور جب تیری جان یہاں پہنچ جاتی ہے (اور آپ نے حلق کی طرف اشارہ فرمایا) تو کہتا ہے، میں صدقہ کرتا ہوں، بھلا اب صدقے کا وقت کہاں؟‘‘ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ : ’’ خَصِيْمٌ ‘‘ مبالغے کا صیغہ ہے، بہت جھگڑنے والا۔ ’’إِذَا‘‘ فجائیہ اچانک کے معنی میں آتا ہے، یعنی ایسی عجیب چیز کا وجود میں آنا جس کا وہم و گمان نہ ہو، یعنی ایسے حقیر قطرے سے پیدا کیے جانے والے انسان کا حق تو یہ تھا کہ ہمیشہ اس کا سر ہمارے احسان کے بوجھ سے جھکا رہتا۔ یہ تو امید ہی نہ تھی کہ وہ صاف جھگڑے پر اتر آئے گا اور اتنا زیادہ جھگڑے گا۔ دیکھیے سورۂ نحل (۴)۔