وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ
اور ہم نے نہ اسے شعر سکھایا ہے اور نہ وہ اس کے لائق ہے۔ وہ تو سرا سر نصیحت اور واضح قرآن کے سوا کچھ نہیں۔
1۔ وَ مَا عَلَّمْنٰهُ االشِّعْرَ وَ مَا يَنْۢبَغِيْ لَهٗ : پچھلی آیات سے اس کی مناسبت یہ ہے کہ کفار توحید و آخرت اور زندگی کے بعد موت اور جنت و دوزخ کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو محض شاعری قرار دے کر اپنے خیال میں بے وزن ٹھہرانے کی کوشش کرتے تھے، یہ ان کے اس الزام کا رد ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت و رسالت کے جس مقام پر فائز ہیں شاعری کو اس سے کوئی مناسبت نہیں۔ شاعری کا حُسن اور کمال تو جھوٹ، مبالغہ آرائی، خیالی بلند پروازی اور فرضی نکتہ آفرینی ہے، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ان چیزوں سے بلندوبالا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت ایسی رکھی کہ باوجود خاندان عبدالمطلب سے ہونے کے، جس کا ہر فرد فطرتاً شاعر ہوتا تھا، پوری عمر میں کوئی شعر نہیں کہا۔ یوں جنگ وغیرہ کے موقع پر زبان مبارک سے کبھی کوئی مقفّٰی عبارت ایسی نکل گئی جو شعر کا سا وزن رکھتی تھی تو وہ الگ بات ہے، اسے شعروشاعری نہیں کہا جا سکتا۔ شعر اور شعراء پر مفصل کلام کے لیے دیکھیے سورۂ شعراء کی آیات (۲۴ ۲ تا ۲۲۷) کی تفسیر۔ 2۔ ’’ وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ‘‘ کے الفاظ پر ان لوگوں کو غور کرنا چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’عَالِمُ مَا كَانَ وَمَا يَكُوْنُ ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ 3۔ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ : یعنی یہ تو نصیحت اور یاد دہانی ہے اور واضح پڑھی جانے والی آسمانی کتاب ہے۔