وَآيَةٌ لَّهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ
اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ بے شک ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔
1۔ وَ اٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ ....: ’’ذُرِّيَّةٌ‘‘ کا لفظی معنی اولاد ہے۔ ’’ ذُرِّيَّتَهُمْ ‘‘ میں ضمیر ’’هُمْ‘‘ سے مراد انسان ہیں۔ ’’الْمَشْحُوْنِ ‘‘ بھری ہوئی، مراد اس سے نوح علیہ السلام کی کشتی ہے۔ یعنی ایک اور نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ ہم نے نسل انسان کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا اور وہ پانی جو لوہے کی سوئی اور لکڑی کے ایک ڈنڈے تک کو نہیں اٹھاتا، بلکہ غرق کر دیتا ہے، اسی پانی نے ہمارے سکھانے کے مطابق لوہے یا لکڑی سے بنی ہوئی کشتی کو اٹھا لیا، جو آدمیوں سے اور ہر جانور کے ایک ایک جوڑے اور ان کی ضرورت کی اشیاء سے خوب بھری ہوئی تھی۔ 2۔ یہاں ایک سوال ہے کہ کشتی میں اولاد ہی نہیں ان کے باپ بھی سوار ہوتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا کہ ’’ہم نے ان کی نسل (یا اولاد) کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا‘‘ یہ کیوں نہ فرما دیا کہ ’’ہم نے ان کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا؟‘‘ جواب اس کا یہ ہے کہ نوح علیہ السلام سے پہلے آباء کو کشتی بنانے کا طریقہ معلوم نہ تھا، نہ وہ سمندر میں سفر کر سکتے تھے۔ آدم علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد، جسے باقی رکھنا منظور تھا، ساری کی ساری اس کشتی میں سوار تھی اور طوفان کے بعد وہی زمین پر باقی رہی، باقی سب غرق ہو گئی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کے متعلق فرمایا : ﴿ وَ جَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِيْنَ ﴾ [الصافات : ۷۷ ] ’’اور ہم نے اس کی اولاد ہی کو باقی رہنے والے بنا دیا۔‘‘ اس لیے یہاں ’’ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ‘‘ فرمایا۔ (نظم الدرر) دوسری جگہ اسی کشتی کا ذکر ان الفاظ میں ہے : ﴿ اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ (11) لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَّ تَعِيَهَا اُذُنٌ وَّاعِيَةٌ ﴾ [ الحآقۃ : ۱۱، ۱۲ ] ’’بلاشبہ ہم نے ہی جب پانی حد سے تجاوز کر گیا، تمھیں کشتی میں سوار کیا، تا کہ ہم اسے تمھارے لیے ایک یاد دہانی بنا دیں اور یاد رکھنے والا کان اسے یاد رکھے۔‘‘