وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
اور سورج اپنے ایک ٹھکانے کے لیے چل رہا ہے، یہ اس سب پر غالب، سب کچھ جاننے والے کا اندازہ ہے۔
1۔ وَ الشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ....: ’’مُسْتَقَرٌّ‘‘ باب استفعال سے اسم ظرف ہے، قرار کی جگہ یا وقت۔ یہ دوسری دلیل ہے، یعنی سورج کا روزانہ غروب ہونے کے بعد طلوع ہونا موت کے بعد زندگی کی دلیل ہے۔ اس آیت کے دو معنی ہیں اور دونوں معنی ایک وقت میں مراد ہو سکتے ہیں اور یہ قرآن کا اعجاز ہے۔ ایک معنی یہ کہ سورج اپنی اس جگہ چل رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر فرما دی ہے اور وہ عرش کے نیچے ہے۔ اس صورت میں ’’ لِمُسْتَقَرٍّ ‘‘ میں ’’لام‘‘ ’’عَلٰي‘‘ یا ’’فِيْ‘‘ کے معنی میں ہو گا، جیسا کہ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے ترجمہ کیا ہے : ’’اور سورج چلا جاتا ہے اپنے ٹھہرے ہوئے راستے پر۔‘‘ اس معنی کی دلیل ابوذر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ’’ وَ الشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ‘‘ کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مُسْتَقَرُّهَا تَحْتَ الْعَرْشِ )) [بخاري، التفسیر، سورۃ یٰسٓ، باب قولہ : ﴿ و الشمس تجري… ﴾ : ۴۸۰۳ ] ’’اس کا مستقر عرش کے نیچے ہے۔‘‘ دوسرا معنی یہ کہ سورج اپنی اس جگہ یا وقت کی طرف چلا جا رہا ہے جو اس کے ٹھہرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے، جہاں پہنچنے کے بعد اسے آگے چلنے کے بجائے واپس چلنے کا حکم دیا جائے گا اور وہ مشرق سے طلوع ہونے کے بجائے مغرب سے طلوع ہو گا۔ اس کے چلنے کا یہ راستہ اور ٹھہر جانے کی وہ جگہ اور وہ وقت اس ہستی کا مقرر کردہ ہے جو سب پر غالب، سب کچھ جاننے والی ہے۔ یہ معنی بھی حدیث سے ثابت ہے، جیسا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ سورج غروب ہوتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : (( أَ تَدْرِيْ أَيْنَ تَذْهَبُ؟)) ’’کیا تم جانتے ہو یہ کہاں جاتا ہے؟‘‘ میں نے کہا : (( اَللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ أَعْلَمُ )) ’’اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتّٰی تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَيُؤْذَنَ لَهَا، وَيُوْشِكُ أَنْ تَسْجُدَ فَلاَ يُقْبَلَ مِنْهَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ يُؤْذَنَ لَهَا، فَيُقَالُ لَهَا ارْجِعِيْ مِنْ حَيْثُ جِئْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَّغْرِبِهَا، فَذٰلِكَ قَوْلُهُ تَعَالٰی: ﴿وَ الشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ﴾)) [ بخاري، بدء الخلق، باب صفۃ الشمس والقمر : ۳۱۹۹ ] ’’یہ سورج چلتا جاتا ہے، حتیٰ کہ عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے، پھر اجازت مانگتا ہے تو اسے اجازت دی جاتی ہے اور قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے تو اس کا سجدہ قبول نہ کیا جائے اور اجازت مانگے تو اسے اجازت نہ دی جائے، پھر وہ اپنے مغرب سے طلوع ہو گا، یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان : ﴿ وَ الشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ ﴾ ‘‘ 2۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ سورج چل رہا ہے۔ سائنس دان اس کی دو حرکتیں بیان کرتے ہیں، ایک اس کی اپنے مدار کے گرد حرکت اور دوسری اس حرکت کے ساتھ ساتھ کسی عظیم کہکشاں کے گرد حرکت۔ (واللہ اعلم) 3۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ حقیقت تو سب کو معلوم ہے کہ سورج ہر وقت چلتا رہتا ہے، اگر کہیں غروب ہوتا ہے تو اس سے اگلی جگہ طلوع ہو رہا ہوتا ہے، تو غروب ہوتے وقت اس کے عرش کے نیچے سجدہ کرنے اور چلنے کی اجازت طلب کرنے کا مطلب کیا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ سورج عرش کے نیچے چل رہا ہے اور ہر وقت اور ہر لمحے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہے اور ہر لمحے اس کا آگے چلنا اللہ تعالیٰ کی اجازت پر موقوف ہے، جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اجازت نہیں ملے گی، وہ ٹھہر جائے گا اور اللہ کے حکم کے مطابق مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو گا۔ اس کی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے : ﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِي الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ كَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَ كَثِيْرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ وَ مَنْ يُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ اِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يَشَآءُ ﴾ [ الحج : ۱۸ ] ’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ، اسی کے لیے سجدہ کرتے ہیں جو کوئی آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے لوگ۔ اور بہت سے وہ ہیں جن پر عذاب ثابت ہوچکا اور جسے اللہ ذلیل کر دے پھر اسے کوئی عزت دینے والا نہیں۔ بے شک اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔‘‘ 4۔ سورج کا روزانہ غروب کے بعد دوبارہ طلوع ہونا موت کے بعد زندگی کی واضح دلیل ہے۔ 5۔ سورج اور چاند کی عظیم مخلوقات کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنی دو جلال و کمال والی صفات ’’عزيز‘‘ اور ’’عليم‘‘ کا یہاں بھی ذکر فرمایا ہے اور سورۂ انعام (۹۶) اور سورۂ حٰم السجدہ (۱۲) میں بھی۔