وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ
اور جب اللہ نے سب نبیوں سے پختہ عہد لیا کہ میں کتاب و حکمت میں سے جو کچھ تمھیں دوں، پھر تمھارے پاس کوئی رسول آئے جو اس کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمھارے پاس ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری عہد قبول کیا ؟ انھوں نے کہا ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا تو گواہ رہو اور تمھارے ساتھ میں بھی گواہوں سے ہوں۔
1۔ وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ....: ان آیات سے مقصود ایسے دلائل کی وضاحت ہے جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ثابت ہوتی ہے۔ (رازی) یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام اور ان کے بعد ہر نبی سے عہد لیا کہ وہ اپنے بعد آنے والے نبی کی تصدیق اور اس کی مدد کرے گا اور اس بارے میں کسی قسم کی گروہ بندی اور عصبیت اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ اگر وہ نبی اس کی زندگی میں آ جائے تو بذات خود اس پر ایمان لائے گا اور اگر اس کی وفات کے بعد آئے تو وہ اپنی امت کو بعد میں آنے والے نبی پر ایمان لانے اور اس کی مدد کرنے کا حکم دے کر جائے گا۔ اس اعتبار سے گویا موسیٰ علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام پر اور عیسیٰ علیہ السلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا ہے۔ طبری اور ابن ابی حاتم میں حسن سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے عہد لیا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری زندگی میں آ جائیں تو تم ان پرایمان لاؤ گے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تفسیر کوئی الگ نہیں بلکہ پہلی تفسیر ہی میں شامل ہے۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور واجب الاتباع ہیں، اب آپ کے سوا کسی اور نبی کی اتباع جائز نہیں۔ 2۔ ”اِصْرٌ“ کسی چیز کے باندھنے اور زبردستی بند کرنے کو کہتے ہیں، یعنی بھاری بوجھ۔ اسی طرح مؤکد عہد کو بھی ”اِصْرٌ“ کہتے ہیں، کیونکہ وہ انسان کو باندھ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب انبیاء سے یہ عہد اور اقرار لیا، انھیں اس کی شہادت کا حکم دیا اور خود بھی شہادت دی۔