لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أُنذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ
تاکہ تو اس قوم کو ڈرائے جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے، تو وہ بے خبر ہیں۔
1۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا اُنْذِرَ اٰبَآؤُهُمْ ....: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے رسول بنایا اور یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جس میں اس سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا، اس لیے وہ دین حق سے بے خبر ہیں۔ یہی مضمون سورۂ سجدہ (۴) میں ملاحظہ فرمائیں۔ 2۔ ابنِ کثیر نے فرمایا کہ ’’ لِتُنْذِرَ قَوْمًا ‘‘ میں قوم سے مراد عرب ہیں، جن کے آباء کو ڈرایا نہیں گیا، مگر اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف عرب ہی کے لیے بھیجے گئے تھے۔ اس کا جواب ابنِ کثیر نے یہ دیا ہے کہ اکیلے عرب کے ذکر سے دوسری اقوام کی طرف مبعوث ہونے کی نفی نہیں ہوتی، جس طرح بعض افراد کے ذکر سے عموم کی نفی نہیں ہوتی۔ یہاں بہت سی آیات اور متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ آپ تمام اقوام کی طرف مبعوث ہیں اور آپ کی بعثت قیامت تک کے لیے ہے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۱۵۷) اور سورۂ سبا (۲۸) مفسر سلیمان الجمل نے فرمایا : ’’ لِتُنْذِرَ قَوْمًا ‘‘ سے مراد عرب اور غیر عرب تمام اقوام ہیں اور ’’ اٰبَآؤُهُمْ ‘‘ سے مراد قریب کے آباء ہیں، یعنی قریب زمانے میں نہ عرب کی طرف کوئی نبی آیا نہ غیر عرب کی طرف۔ ہاں بعید زمانے میں عرب کی طرف اسماعیل، ہود، صالح اور شعیب علیھم السلام مبعوث ہوئے اور غیر عرب کی طرف سب سے آخر میں عیسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے، جن کی بعثت کو تقریباً چھ سو برس گزر چکے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے زمانے کے تمام لوگوں کی طرف مبعوث ہیں، خواہ عرب ہو یا عجم، کیونکہ ان کے قریب آباء کی طرف کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا۔ انبیاء کی آمد پر مدت دراز گزرنے کی وجہ سے یہ سب لوگ اصل دین سے بے خبر ہیں۔‘‘ یہ تفسیر بھی بہت عمدہ ہے۔ اس پر وہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا جو ابن کثیر رحمہ اللہ کی تفسیر پر وارد ہوتا ہے۔ 3۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ زمانۂ فترت (جس میں کوئی رسول نہیں آیا) کے لوگوں کو شرک اور گمراہی کی وجہ سے عذاب کیوں ہو گا، جب کہ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے : ﴿وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا ﴾ [ بني إسرائیل : ۱۵ ] ’’اور ہم کبھی عذاب دینے والے نہیں، یہاں تک کہ کوئی پیغام پہنچانے والا بھیجیں۔‘‘ جواب اس کا سورۂ بنی اسرائیل میں اسی مذکورہ بالا آیت (۱۵) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔