مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ
کسی بشر کا کبھی حق نہیں کہ اللہ اسے کتاب اور حکم اور نبوت دے، پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ اور لیکن رب والے بنو، اس لیے کہ تم کتاب سکھایا کرتے تھے اور اس لیے کہ تم پڑھا کرتے تھے۔
1۔ مَا كَانَ لِبَشَرٍ....: تورات و انجیل میں اہل کتاب کی تحریف بیان کرنے کے بعد اشارہ فرمایا ہے کہ انجیل میں عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی کے دعویٰ کی خاطر بھی تحریف کی گئی ہے، ورنہ نبی تو بشر ہوتے ہیں اور وحی و نبوت ایسی صفات سے مشرف ہونے کے بعد ان کی طرف سے اپنے الٰہ (خدا) ہونے کا دعویٰ محال ہے۔ (رازی) 2۔ پھر جب نبی کا یہ حق نہیں کہ لوگ اس کی عبادت کریں تو دوسرے مشائخ اور ائمہ اس مرتبے پر کیسے فائز ہو سکتے ہیں اور انھیں یہ حق کیسے حاصل ہو گیا کہ اپنے مریدوں کو چوبیس گھنٹے اپنی صورت آنکھوں اور ذہن کے سامنے رکھنے کا حکم دیں اور ان سے یہ عہد لیں کہ میری ہر بات تمہیں ماننا ہو گی، صحیح معلوم ہو یا غلط اور جب مصیبت پیش آئے تو ہمیں یاد کرو گے۔ بتائیے خدائی اور کیا ہوتی ہے؟ نبی ہونے کی حیثیت سے انبیاء کی پیروی اور ان کا ہر حکم ماننا واجب ہوتا ہے، مشائخ اور ائمہ تو واجب الاتباع بھی نہیں ہوتے۔ 3۔ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ:اس سے معلوم ہوا کہ عبد المسیح یا عبد الرسول یا عبد المصطفٰی نام رکھنا جائز نہیں۔ 4۔ ”اَلرَّبَّانِيُّ“ لفظ ’’رب‘‘ پر الف نون بڑھا کر یاء نسبت کی لگا دی گئی ہے اور اس کے معنی عالم باعمل کے ہیں۔ مبرّد فرماتے ہیں کہ یہ ’’رَبَّهُ يَرُبُّهُ فَهُوَ رَبَّانُ ‘‘ ہے، یعنی صیغہ صفت۔’’رَبَّانُ ‘‘کے ساتھ ’’یاء ‘‘ ملائی گئی ہے۔(فتح البیان) صحیح بخاری میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، آیت:﴿كُوْنُوْا رَبّٰنِيّٖنَ ﴾ کا معنی ہے حکماء، فقہاء بنو اور کہا:’’کہا جاتا ہے ’’الربانی‘‘ وہ ہے جو علم کی بڑی باتوں سے پہلے اس کی چھوٹی باتوں کے ساتھ لوگوں کی تربیت کرے۔“[بخاری، العلم، باب العلم قبل القول والعمل....، بعد ح:۶۷] 5۔ بِمَا كُنْتُمْ:اس میں ’’باء‘‘ برائے سببیت ہے، چونکہ تم تعلیم و دراست کا مشغلہ رکھتے ہو، اس لیے تمہیں عالم باعمل اور اللہ کے عبادت گزار بندے بننا چاہیے۔ (بیضاوی) 6۔ كُوْنُوْا رَبّٰنِيّٖنَ:شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’ہاں، تم کو (اے اہل کتاب !) یہ کہنا ہے کہ تم میں جو آگے دین داری تھی، یعنی کتاب کا پڑھنا اور سکھانا، وہ اب نہیں رہی اب میری صحبت میں پھر وہی کمال حاصل کرو۔‘‘ (موضح) اور یہ بات اب قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے اور سیکھنے سکھانے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ 7۔ کسی شخص میں اگر علم اور کتب الٰہیہ کے پڑھنے پڑھانے سے اللہ تعالیٰ کی بندگی کی خصلت پیدا نہیں ہوتی تو یہ مشغلہ وقت ضائع کرنا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے، آپ دعا کیا کرتے تھے:(( اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَّا يَنْفَعُ )) [مسلم، الذکر والدعاء، باب فی الأدعیۃ:۲۷۲۲ ] ’’اے اللہ! میں ایسے علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے۔‘‘ (فتح البیان)