سورة يس - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قرآن مجید کی ہر سورت کے فضائل میں یہ بات ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا پوری کائنات جمع ہو کر بھی کسی ایک سورت جیسی سورت پیش نہیں کر سکتی۔ بعض سورتوں کی کوئی خاص فضیلت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے، جیسا کہ سورۂ فاتحہ کے فضائل پیچھے گزر چکے ہیں۔ سورۂ یٰس کے فضائل میں کئی روایات مشہور ہیں، قریب الموت شخص کے پاس اسے پڑھنے کی روایت تو اتنی مشہور ہے کہ اقبال نے موجودہ مسلمانوں کے قرآن کے ساتھ تعلق کے بارے میں کہا ہے: بآیاتش ترا کارے جزایں نیست کہ از یاسین او آساں بمیری ’’یعنی اس کی آیات کے ساتھ تجھے اس کے سوا کوئی غرض نہیں کہ اس کی سورۂ یٰس کے ساتھ تیری موت آسانی سے واقع ہو جائے۔‘‘ مگر خاص طور پر اس سورت کی فضیلت میں آنے والی کوئی روایت صحیح نہیں، کچھ روایات موضوع ہیں اور کچھ ضعیف ہیں۔ یہاں تفسیر ابن کثیر میں مذکور چند روایات اور ان کا ضعف بیان کیا جاتا ہے : (1) انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ قَلْبًا وَ قَلْبُ الْقُرْآنِ يٰسٓ مَنْ قَرَأَ يٰسٓ كَتَبَ اللّٰهُ لَهُ بِقِرَاءَتِهَا قِرَاءَةَ الْقُرْآنِ عَشْرَ مَرَّاتٍ )) [ ترمذي، فضائل القرآن، باب ما جاء في فضل یٰس : ۲۸۸۷ ] ’’ہر چیز کا ایک دل ہے اور قرآن کا دل سورۂ یٰس ہے اور جو سورۂ یٰس پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے پڑھنے کے ساتھ اس کے لیے دس مرتبہ قرآن کی تلاوت لکھ دیتا ہے۔‘‘ امام ترمذی نے یہ روایت بیان کرکے فرمایا : ’’یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے حمید بن عبد الرحمان کی روایت کے علاوہ نہیں جانتے اور (اس کا ایک راوی) ہارون ابو محمد شیخ مجہول ہے۔‘‘ ابن ابی حاتم نے اپنے والد سے نقل کیا ہے، انھوں نے فرمایا : (( حَدِيْثٌ بَاطِلٌ لَا أَصْلَ لَهُ )) [ العلل :2؍56] ’’یہ باطل حدیث ہے، اس کی کوئی اصل نہیں۔‘‘ محدث علامہ البانی نے اسے موضوع کہا ہے۔ (دیکھیے ضعیف سنن ترمذی) (2) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( مَنْ قَرَأَ يٰسٓ فِيْ لَيْلَةٍ أَصْبَحَ مَغْفُوْرًا لَّهُ )) [مسند أبي یعلٰی: ۶۲۲۴] ’’جو شخص کسی رات سورۂ یٰس پڑھے، وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اسے بخش دیا گیا ہوتا ہے۔‘‘ ابن کثیر نے اس کی سند کو جید کہا ہے، مگر مسند ابویعلٰی کے محقق نے اس کے ایک راوی ہشام بن زیاد کے ضعیف ہونے کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور حافظ ابنِ حجر نے تقریب میں اس راوی کے متعلق فرمایا : ’’ مَتْرُوْكٌ ‘‘ یعنی اسے محدثین نے ترک کر دیا ہے۔ (3) جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( مَنْ قَرَأَ يٰسٓ فِيْ لَيْلَةٍ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللّٰهِ غُفِرَ لَهُ )) [ ابن حبان:۲۵۷۴]’’جو شخص کسی رات اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے سورۂ یٰس پڑھے، اسے بخش دیا جاتا ہے۔‘‘ تفسیر ابن کثیر کے محقق دکتور حکمت بن بشیر نے فرمایا، اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ حسن نے جندب رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا۔ (4) معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يٰسٓ قَلْبُ الْقُرْآنِ لَا يَقْرَأُهَا رَجُلٌ يُرِيْدُ اللّٰهَ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ إِلَّا غُفِرَ لَهُ وَاقْرَؤُوْهَا عَلٰی مَوْتَاكُمْ )) [ مسند أحمد :5؍26، ح : ۲۰۳۰۰ ] ’’سورۂ یٰس قرآن کا دل ہے، جو آدمی بھی اسے اللہ اور دار آخرت کے ارادے سے پڑھے، اسے بخش دیا جاتا ہے اور تم اسے اپنے مرنے والوں پر پڑھو۔‘‘ تفسیر ابن کثیر کے محقق دکتور حکمت بن بشیر نے فرمایا کہ اس کی سند ’’عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِيْهِ‘‘ دو آدمیوں کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (5) ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَوَدِدْتُّ أَنَّهَا فِيْ قَلْبِ كُلِّ إِنْسَانٍ مِنْ أُمَّتِيْ يَعْنِيْ يٰسٓ )) [ مسند بزار : ۲۳۰۵ ] ’’میری خواہش ہے کہ یہ یعنی سورۂ یٰس میری امت کے ہر انسان کے دل میں موجود ہو۔‘‘ محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا : ’’اس کی سند ضعیف ہے، کیونکہ اس کا ایک راوی ابراہیم بن حکم بن ابان ضعیف ہے۔‘‘ تفسیر ابن کثیر میں مذکور روایات کے علاوہ ایک مشہور روایت یہ ہے کہ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں، مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ قَرَأَ يٰسٓ فِيْ صَدْرِ النَّهَارِ قُضِيَتْ حَوَائِجُهُ )) [ سنن الدارمي :2؍549، ح : ۳۴۱۸ ] ’’جو شخص دن کے شروع حصے میں سورۂ یٰس پڑھے، اس کی ضرورتیں پوری کر دی جاتی ہیں۔‘‘ دارمی کے محقق حسین سلیم اسد نے فرمایا : ’’اس کی سند ضعیف و مرسل ہے۔‘‘ یعنی عطاء بن ابی رباح تابعی ہیں، انھوں نے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور نہ اپنی خبر کا ذریعہ بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں ابراہیم بن حکم راوی ضعیف ہے۔ ان روایات کے علاوہ روایات کا حال ان سے بھی ابتر ہے۔