اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ ۚ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا
زمین میں تکبر کی وجہ سے اور بری تدبیر کی وجہ سے اور بری تدبیر اپنے کرنے والے کے سوا کسی کو نہیں گھیرتی۔ اب یہ پہلے لوگوں سے ہونے والے طریقے کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟ پس تو نہ کبھی اللہ کے طریقے کو بدل دینے کی کوئی صورت پائے گا اور نہ کبھی اللہ کے طریقے کو پھیر دینے کی کوئی صورت پائے گا۔
1۔ اسْتِكْبَارًا فِي الْاَرْضِ : یعنی ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے اور ہدایت سے بدکنے اور دور بھاگنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا سمجھتے تھے، بلکہ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ زمین پر رہ کر، جو اللہ تعالیٰ کی کائنات میں پستی کی انتہا ہے، اونچے اور بڑے بن کر رہنا چاہتے تھے، جو پیغمبر کی اطاعت قبول کرنے کی صورت میں ممکن نہ تھا، کیونکہ اس وقت انھیں اپنی مرضی چھوڑ کر اللہ کے حکم کے تابع ہونا پڑتا تھا، جو انھیں منظور نہ تھا۔ 2۔ وَ مَكْرَ السَّيِّئِ : اور حق سے زیادہ دور ہونے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق و امانت کو جاننے کے باوجود آپ پر ایمان لانے کے بجائے حق کا راستہ روکنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچانے کے لیے بہت بری تدبیریں اور خوف ناک سازشیں اختیار کیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حق قبول کرنے کے بجائے ضد میں آ کر وہ اس سے بہت دور ہو گئے، جیسا کہ سورۂ انفال (۳۰) میں کفار مکہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قید، جلاوطنی یا قتل کی تدبیروں کا ذکر ہے۔ 3۔ وَ لَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ: ’’حَاقَ يَحِيْقُ‘‘ اور ’’أَحَاطَ يُحِيْطُ‘‘ دونوں کا معنی گھیرنا ہے، یعنی بری تدبیر جس کے متعلق کی جائے ہو سکتا ہے اسے تھوڑا بہت نقصان پہنچ جائے، مگر وہ پوری طرح گھیرا اور احاطہ بری تدبیر کرنے والے ہی کا کرتی ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ نہیں بگڑا، بلکہ ان سازشوں نے غزوۂ بدر، احد، خندق اور فتح مکہ میں کفار ہی کو گھیرے میں لے کر انھیں ناکام و نامراد کر دیا۔ 4۔ فَهَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِيْنَ: یعنی اگر یہ اپنی روش نہ بد لیں گے اور اپنی سرکشی میں بڑھتے جائیں گے تو پہلے کافروں کی طرح ان پر عذاب نازل ہو کر رہے گا۔ 5۔ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا : یعنی اللہ تعالیٰ کا دستور جو پہلے سے چلا آ رہا ہے کہ وہ مجرموں کو مہلت دیتا ہے، پھر پکڑ لیتا ہے، تم اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں پاؤ گے کہ ان مجرموں کی رسی ہمیشہ دراز رہے، یا انھیں عذاب کے بجائے انعام سے نوازا جائے۔ اس میں کفار کے لیے وعید ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کے لیے تسلی اور بشارت ہے۔ 6۔ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا : نہ ہی یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کوئی کام ہونے کا حکم دے یا کسی قوم پر عذاب نازل کرنے کا ارادہ کرے اور عذاب نازل نہ ہو، یا کسی قوم پر عذاب کا ارادہ کرے اور وہ اس سے پھیر کر کسی اور قوم پر نازل کر دیا جائے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اِذَا اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ﴾ [ الرعد : ۱۱ ] ’’اور جب اللہ کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کر لے تو اسے ہٹانے کی کوئی صورت نہیں۔‘‘